بدھ، 16 اگست، 2023

فلسفہ کی اہمیت اورفوائد


·       فلسفہ کو سب  دنیاوی علوم کی ماں کا جاتا ہے کیونکہ سب علوم اسی سے ہی نکل کر آگے بڑھے ہیں ۔

·       فلسفہ کا مطلب ہے حکمت سے محبت اور کون شخص ہو گا جو حکمت کو پسند نہ کرے حکمت دین اور دنیا دونوں میں مطلوب رہی ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا جن کو حکیم مانتی ہے ان سب کے پاس کوئی نہ کوئی فلسفہ تھا۔

·       فلسفہ ہماری زندگی میں انقلاب برپا کرتا ہے فلسفہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے جو بات فلسفہ کی بنیاد پر کی جائے اس بات کا وزن ہوتا ہے وہ دلوں کومتاثر کرتی ہے۔

·       فلسفہ سے غور وفکر پیدا ہوتا ہے اور انسان کا مابہ الامتیاز یہی غور فکر ہے ۔انسان غور کرتا ہے اپنی فکر سے نئی بات دریافت کرتا ہے ۔مختلف اشیاء کی حقیقوں کو تلاش کرتا ہے۔خیر اور شر کو پہچاننے کی کوشش کرتا ہے ۔

·       فلسفہ انسان کو خد اکے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتا ہے ۔وہ انسان کو خدا کے انکار تک ہر گز نہیں پہنچاتا بلکہ وحی کے نہ ہونے کی صورت میں انسان کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے جس سے کوئی بھی سلیم الفطرت انسان فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔

·       فلسفہ نے قوموں کی قیادت کی ہے اور قومیت کی تشکیل میں واضح کردار ادا کیا ہے ۔اقوام ایک دوسرے سے فلسفہ کے ذریعے ہی جدا ہوتی ہے ۔کسی بھی تہذیب کو اٹھا کر دیکھ لیجئے آپ کو اس کے پیچھے خا ص فلسفہ حیات کارفرما نظر آئے گا۔یہ کہنا کہ فلسفہ کا زندگی میں عمل دخل نہیں رہا کسی مجنون کی بات تو ہو سکتی ہے لیکن کوئی واقف کار ایسا نہیں کہہ سکتا۔مسلمانوں کا رہن سہن اور تہذیب وتمدن دوسری اقوام سے جدا ہے کیونکہ مسلمانوں کے پاس اپنا ایک فلسفہ حیات ہے ۔مغربی تہذیب و تمدن کو جب آپ تحلیل کر کے دیکھیں گے تو اس کے پس پردہ فرائڈ،اور ڈارون جیسے لوگوں کا فلسفہ ہی ملے گا۔آپ ان کا فلسفہ بدل ڈالیے ان کی زندگی بھی بدل جائے گی۔

·       کوئی بھی علم فلسفہ سے بے نیاز نہیں ہر علم کی انتہا ء فلسفہ پر ہوتی ہے۔کسی بھی علم کی اعلی درجہ کی باتیں فلسفیانہ ہوتی ہیں ۔سائنس جیسا علم اپنی بات سمجھانے میں فلسفہ کا محتاج ہے ۔ فلسفہ کے بغیر سائنس محض چند منتشر باتوں کے مجموعہ کے کا نام ہی رہ جاتا ہے ۔ڈارون کا نظریہ ارتقاء ہو ،نیوٹن کا نظریہ کشش ثقل اور آئن سٹائن کا نظریہ اضافت سوائے فلسفہ کے اور کیا حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ ایک ایسا علم ہے جس سے کوئی علم مستغنی نہیں ۔اس کا تعلق مظاہر سے حقیقت تک ہر علم کے ساتھ ہے اور اسی مضبوط ربط واتصال نے لوگوں کواس شبہ میں ڈالا کہ فلسفہ کوئی علیحدہ علم ہے بھی کہ نہیں یا اس کی کوئی تعریف ممکن بھی ہے یا نہیں۔

·       فلسفہ ہی کی وجہ سے آج ہم اس قابل ہیں کہ قوموں کی عروج وزوال کی کہانی کا منظم طور پر تجزیہ وتحلیل کر سکیں اور یہ دیکھ سکیں کہ عروج وزوال کے اسباب کیا ہیں۔بابل اور نینوا ،یونان اورروم ہند ومغرب سب کی تہذیبی بنیاد فلسفہ پر ہی قائم ہے ۔

·        فلسفہ کا تعلق کلیات سے جزئیات تک سب کے ساتھ ہے ۔ایک عام انسان کی زندگی کو دیکھیں وہ اپنے لیے کیسے ایک فلسفہ حیات متعین کر کے اس پر ساری زندگی عمل پیر ا ہوتا ہے ۔وہ آپ کے سامنے اپنے مخصوص طریق زندگی کی وضاحت میں ایک نظریہ پیش کرے گا اس پر کچھ دلائل دے گا کچھ باتوں کو رد کرے گا اور کچھ کو شک کی نگاہ سے دیکھے گا ۔بس اسی کا نام فلسفہ ہے ۔اگر کسی علمی یا عملی انقلابی تحریک کے پیچھے فلسفہ نہ ہو تووہ کبھی پروان نہیں چڑھ سکتی۔

·       فلسفہ میں جامعیت ہے فلسفہ ایسے بنیادی سوالات اٹھاتا ہے جو زندگی کے لیے ضروری ہیں اور کوئی دوسرا علم ان سوالات کو اٹھا نے کی یا ان سے بحث کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ہم یہاں دین اور وحی کی بات نہیں کر رہے کہ وہ ہمارے لیے نہایت محترم ہیں مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ دین اور مذہب ہمیں بنیادی سوالات کے جوابات تو دیتے ہیں مگر بنیادی سوالات اٹھانا فلسفہ کا ہی کام ہے ۔بیشک جواب کی اہمیت زیادہ ہے مگر سوال بغیر جواب کی طرف توجہ بھی کم پائی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ سوچ کسی کے کردار کے متعلق ہو یا آفاق کے متعلق سوچ کر ایمان لانے والوں کا درجہ تقلیدا  ایمان لانے والوں سے زیادہ ہے۔افلا یتدبرون افلا یتفکرون اور الذین یستمعون القول فیتبعون احسنہ جیسی آیات اس پر شاہد عدل ہیں۔ ۔

·       فلسفہ سے کلیات حاصل ہوتے ہیں ۔جن کی مدد سے ہم بہت ساری ایسی چیزوں کے بارے میں بھی جان جاتے ہیں جو ابھی معرض وجود میں نہیں آئی۔اور جن سے ہم مستقل فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔

غرض طرز زندگی کا مسئلہ ہو یا علوم کا، بات حقیقت کی ہو یا مظاہر کی آپ کسی بھی جگہ فلسفہ سے نہیں بھاگ سکتے ۔آپ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ یونانی فلسفہ ٹھیک نہیں یا مغربی فلسفہ میں خامیاں ہیں مگر نفس فلسفہ کی افادیت کا انکار نہیں کر سکتے۔اگر تاریخ انسانی پر نظرڈالیں تو تاریخ کے ہر اہم موڑ پر فلسفہ نے اپنا کردار بخوبی نبھایا ہے ۔

 


تعارف جامع البیان فی تفسیر القرآن

 


مؤلف:ابو جعفر محمد بن جریر بن یزید بن کثیربن غالب ،طبری ۔

وفات:224ء

علمی مقام:مجتہد مطلق تھے ،اجتہاد سے پہلے مسلک شافعی تھا۔ ان کا شمار تفسیر کے بانیوں میں کیا جاتا ہے

تعارف تفیسر: جامع البیان 30 جلدوں میں لکھی گئی ہے ۔تمام تفاسیر میں اسے اقوم و اشہر مانا گیا ہے ۔تفسیر ماثور میں مرجع اول قرار دیا گیا ۔اگرچہ عقلی تفسیر کے اعتبار سے بھی مرجع کی حیثیت رکھتی ہے کوئی طالب تفسیر اس سےمستغنی نہیں ۔

خصوصیات جامع البیان

1۔ جب کسی آیت کی تفسیر کا ارادہ کرتے ہیں تو کہتے ہیں القول فی تاویل قولہ تعالی کذا وکذا پھر اپنی تفسیر پر صحابہ یا تابعین سے باسند روایت نقل کرتے ہیں اور اگر آیت میں ایک سے زیادہ اقوال ہوں تو سب کو ذکر کرتے ہیں ۔

2۔توجیہ اقوال بھی کرتے ہیں اور بعض کو بعض پر ترجیح بھی دیتے ہیں ۔

3۔ضرورت ہو تو اعراب بھی ذکر کرتے ہیں

4۔آیت حکم سے ممکنہ احکام کا استنباط نیز پھر اپنے مختار مذہب کو ترجیح بھی دیتے ہیں ۔

5۔بغیر نقل کے صرف تفسیر بالرائ کی مذمت کرتے ہیں

6۔اگرچہ روایات کو باسند اپنی تفسیر میں ذکر کرنے کا التزام کیا ہے مگر عام طور پر روایات کی تصحیح و تضعیف کے درپہ نہیں ہوئے اگرچہ بعض مقامات پر نقد بھی کیا ہے ۔

7۔اپنی تفسیر میں اجماع امت کو بڑی اہمیت دی ہے ۔

8۔اسرائیلیات کو بھی کثرت سے ذکر کیا ہے اور باسند ذکر کیا ہے تاکہ لوگ صحیح و غیر صحیح کو خود ہی دیکھ لیں ۔

9۔لایعنی میں بالکل نہیں پڑتے مثلا حضرت عیسی علیہ السلام کے حواریوں پر جو دسترخوان اتارا گیا اس میں کیا تھا مفسرین نے احتمالات ذکر کیے ہیں مگر ابن جریری رحمہ اللہ کو یہ ناپسند ہے کہ قرآن نے وضاحت جب نہ کی اور ضرورت بھی نہ تھی پھر بھی توجیہات کی جائیں

10۔اگر کسی لفظ کے لغوی معنی تو ایک ہوں مگر مراد واضح نہ ہو تو کلام عرب میں جو معنی مشہور ہیں اسے ترجیح دیتے ہیں ۔

11۔مذاہب نحویہ کو بھی ذکر کیا ہے ۔

12۔احکام فقہیہ بھی ان کے ہاتھ نہیں چھوٹتے ۔

13۔ علم کلام کی اگر بات آجائے تو اس میں بھی گہرائی میں جاتے ہیں گویا اس علم میں بھی مہارت تامہ رکھتے ہیں ۔

تفسیر جامع البیان کا شمار امہات تفاسیر میں کیا جاتا ہے اور ماخذ کی حیثیت سے اسے جانا جاتا ہے ۔

 


تعارف کتاب ہمعات

 



زیرنظر کتاب ہمعات شاہ ولی اللہ مرحوم کی تصنیف ہے ۔ مولانا عبیداللہ سندھی کے بقول اس کتاب کو تصوف کا فلسفہ تاریخ سمجھنا چاہیے ۔ شاہ صاحب نے کتاب میں تصوف کی تاریخ اور تصوف پر چلنے کے عملی طریقے بیان کیے ہیں ۔ جس میں اطاعت ، ذکر اذکار، مراقبہ ، اور نسبتوں کا بیان ہے ۔ اس ضمن میں شاہ صاحب نے چھ نسبتوں کی تفصیل بیان کی ہے نسبت سکینہ ، نسبت اویسیہ ، نسبت یاداشت،نسبت توحید ، نسبت عشق اور نسبت وجد۔ اور یہ کہ کن بزرگوں کو کون کون سے نسبتیں حاصل تھی ۔

شاہ صاحب کے نزدیک شریعت کامقصد یہ ہے کہ انسان کو چار نسبتیں حاصل ہوں طہارت، عجز وخضوع، سماحت اور عدالت، شاہ کے نزدیک ان چار خصلتوں کا جو مفہوم ہے اسے کتاب میں تفصیلاً بیان کیا ہے ۔کتاب میں انسانی لطائف کا بیان ، اور انسانوں کی استعدادوں کا بیان بھی موجود ہے ۔

ایک باب کرامات کے حقیقت کے بیان میں رکھا گیا ہے جس میں شاہ صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ کن ریاضتوں سے کون سی کرامات ظاہر ہوتی ہیں ۔ایک بات بخت کے بیان میں ہے اس باب میں شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ کرامات کا ایک سبب بخت بھی ہے اور اسی باب پر کتاب کا اختتام ہوتا ہے ۔کتاب کے اختتام پر شاہ صاحب لکھتے ہیں "اس کتاب کی ابتداء میں ہم نے جو شرط کی تھی کہ ان وجدانی علوم کے ساتھ منقولات اور معقولات کو خلط ملط نہیں ہونے دیا جائے گا وہ شرط پوری ہوئی "۔

کتاب پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس زمانہ کے تصوف میں کس قدر فلسفہ کے اثرات پائے جاتے تھے ۔ مثلا ً شاہ صاحب نسبت توحید کے بیان میں جب درجات بیان کرتے ہیں تو انہیں تنزلات کا ذکر کرتے ہیں جو قدیم فلسفی فلاطینوس( جسے تصوف کا بانی بھی کہہ دیا جاتا ہے) نے تجلی کے باب میں بیان کیے تھے ۔ ہمارے زمانے کے لحاظ سے یہ کتاب تصوف کے مبتدی کے لیے نہیں ہے ۔

اصل کتاب فارسی میں تھی پروفیسر محمد سرور صاحب نے اس کو اردو قالب میں ڈھالا ہے ۔میرے پاس جو نسخہ ہے وہ سندھ ساگر اکادمی نے لاہور سے چھا پی ہے ۔کتاب دو سو بارہ صفحات پر مشتمل ہے ۔

 ڈاونلوڈ لنک


مقاصد شریعت کے متعلق اہل علم کی آراء

 

اللہ تعالی نے رسول اللہ کو آخری نبی بنا کر بھیجا ہے اور ان کو ایک ایسی شریعت سے نوازا جو کامل اور مکمل شریعت ہے۔شریعت اسلامیہ چونکہ آخری شریعت تھی اس وجہ سے اس میں لوگوں کے مزاج اور عادات ،ان کی ضروریات اور حاجات کا خاص خیال رکھا گیا تاکہ ہر زمانہ کے لوگوں کے لیے اس پر عمل کرنا آسان ہو۔شریعت اسلامیہ کو اللہ تعالی نے بہت سے خصائص سے نوازا ہے جن میں عدم مشقت ،عدم حرج،یسر ،مرونت اورکامل اور مکمل ہونا ہے۔

شریعت اسلامیہ کے خصائص میں سے ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ اس کا کوئی کام عبث اور بے فائدہ نہیں بلکہ  اس کے کام مقاصد سےوابستہ ہیں چنانچہ عبادات ہوں یا معاملات ہر کام میں کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہےاللہ تعالی نے خود قرآن کریم میں اپنے کئی احکامات کے مقاصد بیان کیے ہیں:

    جس طرح یہ شریعت جامع ہے اسی طرح اس کے مقاصد بھی اتنے جامع ہیں کہ کوئی چھوٹی سے چھوٹی جزئی ان سے خارج نظر نہیں آتی ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور آپ کے فرامین مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ مقاصد کی بہت رعایت فرماتے تھے آپ کی سیرت پر چلتےہوئے صحابہ کرام نے بھی اپنے فیصلوں میں مقاصد پر نظر رکھی اور بعد میں ائمہ عظام نے انہی اسلاف کو دیکھتے ہوئے مقاصد کو اپنے اصولوںمیں سے ایک اصل مان لیا۔چاہے اس کا نام استحسان ہو یا مصالح مرسلہ یا چاہے ان ناموں کا انکار ہی کر دیا جائے مگر اصل حقیقت سے کبھی روگردانی نہیں کی گئی یہی وجہ ہے کہ امام شافعی جو استحسان اور مصالح مرسلہ کو حجت نہیں مانتے ان کے ہاں بھی  اجتہادات میں ہمیں مقاصد کی رعایت صاف دکھائی دیتی ہے ۔بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ مقاصد کی رعایت مجتہد کے لیے شرط ہے ۔

مقاصد شریعت      کے متعلق اہل علم کی آراء کا تاریخی مطالعہ

      یہ ایک حقیقت ہے کہ مقاصد اگرچہ شروع زمانہ اسلام سے ہی مجتہدین کے اجتہادات کا ماخذ رہے ہیں مگر ابتدا میں ان پر علیحدہ سے کوئی کام نہیں کیاگیا شاید اس لیے کہ علوم اپنی ابتداء میں مختصر اور بنیادی ہوتے ہیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی ایک ایک چیز نکھرتی چلی جاتی ہے ۔پھر جب  علوم کی تشریحات اور توضیحات کا زمانہ آیا تو مقاصد پر بھی کام شروع  ہوا مگر ضمنی طور پر ۔کبھی اصول فقہ کے تحت اور کبھی فقہ کے تحت مقاصد کا ذکر ہوتا رہا ۔

(١)سب سے پہلے امام الحرمین نے مقاصد خمسہ کو پیش کیا نیز انہوں نے مقاصد کی تقسیم ضروری حاجی اور تحسینی میں کی ۔[1]

(٢)پھر ابو حامد الغزالی نے اس تقسیم کو خوب نکھارا اور زیادہ بہتر انداز سے المستصفی میں ان کو پیش کیا ۔[2]

(٣)سیف الدین آمدی نے ان میں اسقدر اضافہ کیا کہ ان میں تعارض کے وقت ترتیب قائم کر دی نیز مقاصدکے پانچ میں منحصر ہونے کا دعوی کیا  ۔[3]

(٤)  سبکی نے ایک اور مقصد حفاظت عرض کا اضافہ کیا ۔[4]

)٥)ابن تیمیہ نے کہا کہ مقاصد کا پانچ میں انحصار درست نہیں ہے ۔ابن تیمیہ سے پہلے جتنے حضرات تھے انہوں نے مقاصد کی بنیاددفع مضرت پررکھی تھی  ۔ابن تیمیہ نے کہا کہ مقاصد کی بنیاد دفع مضرت نہیں بلکہ جلب منفعت پر ہونی چاہیے۔ [5]

       (٦)مقاصد پر مکمل طور پر تفصیلی کام سب سے پہلے ہمیں امام شاطبی کے ہاں نظر آتا ہے جنہوں نے اس پر کام کیا اس کے اصول وفروع کونکھارا اس کے کلیات بنائے اور ایک مستقل علم کے طور پر اس پر بحث کی ۔لیکن امام شاطبی نے بھی مقاصد کی بنیاد دفع مضرت ہی کوبنایا۔یہ سب کام آٹھو یں صدی تک ہوا اس کے بعد طویل زمانہ تک اس پر کچھ اضافہ نہیں ہوا ۔[6]

(٧)ہندوستان میں شاہ ولی اللہ نے حجة اللہ البالغہ میں مقاصد کا ذکر کیا ۔[7]

(٨)شیخ ابن عاشور نے دوبارہ مقاصد کو موضوع بحث بنایا اور نئے سرے سے اس پر نظر کی اور مقاصد شریعت کو ایک منظم علم کے طور پر مدون کرنے کی کوشش کی، نیز مقاصد عامہ کی فہرست میں سماحت و یسر ،حریت اور مساوات کا اضافہ کیا ۔[8]

      (٩)اسی زمانہ کی ایک اور شخصیت شیخ علال فاسی نے ایک کتاب لکھی اور انہوں نے عدل بین الناس ،اصلاح ارض ،اور نظام معیشت کو بھی مقاصد  میں شامل کیا [9]۔شیخ احمد الخملیشی نے اجتماعی اقتصادی اور سیاسی حقوق کو بھی مقاصد میں شمار کیا [10]

(١٠)اقبال نے حریت ،مساوات  اور حفظ نوع انسانی کے مقاصد میں ہونے کا ذکر  کیا ۔[11]

(١١)دور آخر میں نجات اللہ صدیقی صاحب نے مقاصد پر ایک کتاب لکھی اور اس میں پانچ مقاصد کے علاوہ مزید چھ مقاصد کا اضافہ کیا :

١۔انسانی عز وشرف۔

٢۔بنیادی آزادی۔

٣۔عدل وانصاف ،ازالہ غربت اور کفالت عامہ۔

٤۔سماجی مساوات اور دولت کی تقسیم میں بے اعتدالی کو روکنا۔

٥۔امن وامان اور نظم ونسق۔

٦۔بین الاقوامی سطح پر باہمی تعامل اور تعاون۔[12]

اور اس طرح مقاصد عامہ کی فہرست میں مختلف اقوال سامنے آنے لگے ۔

 



[1] الجوینی،امام الحرمین، عبدالملک بن عبداللہ بن یوسف الجوینی،البرھان فی اصول الفقہ(دارالکتب العلمیہ ،طبع اولی1997،لبنان ،بیروت)ج2،ص:79۔

[2] الغزالی،ابوحامد محمد بن محمد الطوسی،المستصفی(دارالکتب العلمیۃ ،طبع اولی1993،بیروت لبنان)ص:174۔

[3] الآمدي، أبو الحسن سيد الدين علي بن أبي علي بن محمد بن سالم الثعلبي ،الاحکام فی اصول الاحکام(المکتب الاسلامی/بیروت ،لبنان)ج3،ص:274۔

[4] السبکی،تاج الدین عبدالوھاب بن علی ،جمع الجوامع فی اصول الفقہ(دارالکتب العلمیۃ،طبع ثانیہ 2003،بیروت، لبنان) ص:92۔

[5] ابن تیمیۃ،تقي الدين أبو العباس أحمد بن عبد الحليم بن عبد السلام ابن تيمیہ الحراني الحنبلي الدمشقي،الفتاوی الکبری (دارالکتب العلمیۃ،طبع اولی1987،بیروت ،لبنان)ج4،ص:469۔

[6] دیکھیےشاطبی،ابواسحق ابراھیم بن موسی اللخمی الغرناطی،الموافقات فی الشریعۃ(دارالکتاب العربی بیروت لبنان)الجزء الثانی ،کتاب المقاصد۔

[7] دہلوی،شاہ ولی اللہ دہلوی،حجۃ اللہ البالغۃ اردو(فرید بک سٹال 40،اردو بازار لاہور)۔

[8] ابن عاشور،حمدطاہرابن عاشور،مقاصد الشریعۃ الاسلامیۃ(دارالنفائس،طبع ثالثہ،2001،اردن) ص268،329،390۔

[9] فاسی،علال فاسی ،قاصد الشریعة الاسلامیۃ  ومکارمھا              (دارالغرب السلامی ،طبع خامسۃ،1993)۔

[10] الخمیشی،احمد،وجھۃ نظر(درنشر المعرفۃ،1998،الرباط)ج2،ص:126۔

[11] اقبال،علامہ ڈاکٹر محمد اقبال ،تشکیل جدید الہیات اسلامیہ (بزم اقبال 2کلب روڈ،لاہور)ص:229۔

[12] نجات اللہ ،محمد نجات اللہ صدیقی،مقاصد شریعت (ادارہ تحقیقات اسلامی/سن اشاعت 2014)ص: 21۔


شرح عقائد کے تدریسی مسائل

 


شرح عقائد ایک نصابی  کتاب ہے جس کا آدھے سے زیادہ حصہ  فلسفیانہ مباحث سے پر ہے ۔ اس سے مکمل استفادہ  اور اس کا افادہ تبھی ممکن ہے جب پہلے فلسفہ کے مسا ئل اور ان کے سیاق سےاچھا علم ہو ۔

بنیادی مسئلہ :

            بنیادی مسئلہ جو پیش آتا ہے وہ یہ ہے کہ    شرح عقائد کی تدریس کے دوران اسی بات کا علم نہیں ہوتا کہ کون سے مسائل آج بھی توجہ طلب ہیں  اور کون سے مسائل صرف تاریخ کا حصہ بن کر رہ گئے ہیں اسی طرح کن مسائل کی جگہ نئے مسائل نے لے لی ہے ،اور ہمارے زمانے کے علماء ان مسائل کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ۔ ان باتوں کا علم بہت ضروری ہے  ہم اس مسئلہ کی وضاحت ایک مثال سے کرتے ہیں مثلاًشرح عقائد کا پہلا مسئلہ یہ ہےکہ اشیاء کے حقائق ثابت  ہیں ۔ جس کا مطلب ہے کہ ہمیں جو چیزیں نظر آتی ہیں یہ حقیقت میں موجود ہیں  یہ محض خیال نہیں ہیں یافلسفہ کی مشہور زبان میں یوں کہیں کہ مادہ موجود ہے ۔  اس پرعلامہ تفتازانی نے ابتدا میں ان فلاسفہ کے نظریات ذکر کیے ہیں جو حقائق اشیاء کے منکر ہیں پھر ان کے گروہوں کو ذکر کر کے ان پر رد کیا ہے ۔ یہاں دو باتیں قابل غور ہیں :

1.     پہلی یہ کہ مادہ موجود ہے اس کا تعلق فلسفہ سے اور پھر علم کلام سے کیسے ہے ؟  

2.     دوسرا یہ کہ ہمارے زمانہ  میں اس مسئلہ کی اہمیت کیا ہے اور  اس مسئلہ کے متعلق اہل علم کی رائے کیا ہے ؟

            پہلے سوال کا جواب میں ہمیں ضرورت ہے کہ فلسفہ کی مختصر تاریخ معلوم یہاں اس کا جواب مختصر الفاظ میں کچھ یوں ہے کہ شروع سے آج تک فلسفہ میں دو  نظریات  ساتھ ساتھ چلتے  آئے ہیں ایک یہی کہ اشیاء حقیقی حیثیت میں موجود ہیں اور دوسرا یہ کہ اشیاء اضافی ہیں  بالفاظ دیگر مادہ موجود ہے یا مادہ فریب نظر ہے ۔ رہا اسکا علم کلام سے تعلق تو اس کی حقیقت  سمجھنے کے لیے علم کلام کی تاریخ کا علم ہونا ضروری ہے جسے خوبصورت انداز ے مولانا شبلی نعمانی مرحوم نے الکلام اور علم الکلام میں ذکر کردیا ہے ۔

دوسرے سوال کا جواب یہ ہےکہ  قدیم زمانہ کی طرح جدید سائنس میں بھی یہ مسئلہ  معرکۃ الآراء ثابت ہوا ہے ۔ نیوٹن کے زمانے کو مادی زمانہ مانا جاتا ہے جبکہ آئن سٹائن کے زمانہ سے مادہ کی حقیقت بکھر کر رہ گئی ہے ۔(جس کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں) پھر الحاد اور دہریت کی جڑیں مادہ کے ساتھ بہت گہرا تعلق رکھتی ہیں ۔آپ نے مادہ پرستی کا لفظ تو بار بار سنا ہی ہو گا اس کا تعلق بھی حقائق الاشیاء کے ساتھ ہی ہے ۔ قریب زمانہ تک سائنس نے اس بات کو بہت زور وشور سے بیان کیا  کہ مادہ موجود ہے، مادہ ہی حقیقت مطلقہ ہے اور  سب کچھ مادہ ہی کی کارفرمائی اور جلوہ گری ہے  ۔

مادہ کو اس طرح ماننے سے جو برگ وبار آئے وہ کچھ یوں تھے کہ :

1.     خدا کا انکار کیا گیا  کیونکہ مادہ نظر آتا ہے اور خدا نظر نہیں آتا۔

2.     دینا کی تخلیق مادہ ہی کی دین ہے گویا مادہ ہی اس کا خالق ہے ۔

3.     معجزات کا انکار کیا گیا  کیونکہ مادی دنیا ایک نظام میں بندھی ہوئی ہے معجزہ کا مطلب ہے اس مادی نظام کو توڑنا جو کہ محال ہے ۔

4.     مادہ کے ازلی ہونے کا اقرار کیونکہ ان کے نزدیک مادہ کبھی پیدا نہیں ہوا یہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔

 جب مادہ کو ماننے کی وجہ سے ایسے نتائج حاصل ہونے لگے تو اس زمانے کے   متکلمین حضرا ت نے ضروری سمجھا کہ  مادہ پر ضرب کاری لگائی جائے اور اس کی پوزیشن کو واضح کیا جائے  ۔  غور فرمائیں شرح عقائد کے پہلے مسئلہ" حقائق الاشیاء ثابتۃ  "کی صورت یہاں آکر بدل جاتی ہے پہلے تک جس مسئلہ پر زور تھا کہ مادہ موجود ہے اب جدید متکلمین اس کا انکار کرنے لگے کہ ضرورت ہی بدل گئی ہے ۔

             اس مسئلہ کی تنقیح کے لیے مولانا سید مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ کی کتاب الدین القیم کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔اس کے ساتھ ساتھ دہریت کے خلاف کام کرنے والی مشہور شخصیت ہارون یحی کی کتب میں بھی یہ مسئلہ تفصیل سے  اور سائنسی انداز میں موجود ہے  ۔ اب آپ دوبارہ غور فرمائیں    کہ حقائق الاشیاء کا مسئلہ کیا حقیقت رکھتا ہے ۔اور کیا منکرین مادہ کا جس انداز سے علامہ تفتازانی نےان کا رد کیا ہے کیا وہ ہمارے زمانہ میں بھی اسی قابل ہے   ۔ نیز اگر یہ فلسفہ مکمل طور پر قابل رد ہے  تو ہمارے زمانہ میں بڑے مسلم فلاسفہ اسی نظریہ کے تحت کیسے اسلام کا دفاع کر رہے ہیں ۔  ان سوالات کے جوابات وہی استاذ دے سکتا ہے جس کا تعلق فلسفہ اور علم کلام کےساتھ بھی ہو اور ساتھ ہی ساتھ جدید کتب کا مطالعہ بھی رکھتا ہو۔

عقائد کی تاریخ جاننے کی ضرورت :

             ایک اور چیز جس کی بہت ضرورت ہے وہ عقائد کی تاریخ ہے ۔عموما ًشرح عقائد سے پہلے مدارس میں ایسی کوئی کتاب نہیں پڑھائی جاتی جس میں شرح عقائد میں موجود نظریات کی تاریخ کا ذکر ہو۔ علامہ تفتازانی نے شروع میں اختصار کے ساتھ یہ بات بیان کی ہے کہ عقائد کے متعلقہ مسائل کیسے پیدا ہوئے اور کیسے کیسے یہ علم علم کی صورت اختیار کرتا گیا ۔لیکن اس میں کافی اختصار ہے ۔ جب کہ ضرورت اس سے کہیں زیادہ ہے ۔ اس موضوع پر علامہ شبلی نعمانی مرحوم کی کتاب الکلام اور علم الکلام ایک لاجواب کتاب ہے ۔

شرح عقائد میں اشعریہ طرز فکر اور ماتریدیہ

            ایک مسئلہ یہ ہے کہ  شرح عقائد طریقہ اشعریہ پر لکھی گئی ہےاور پڑھائی حنفی مدارس میں جارہی ہے جنہیں ماتریدی نظریات کا حامل ہونا چاہیے ۔ کبھی یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ اشاعرہ اور ماتریدیہ میں کوئی زیادہ فرق نہیں ۔ لیکن شاید یہ کہنا ٹھیک نہ ہو ہمارے زمانہ میں دو مسائل میں بھی اختلاف ہوجائے تو فرقہ کہہ کر جدا کردیا جاتا ہے یہاں  تو دس سے زیادہ مسائل میں اختلا ف پایا جاتا ہے ۔ نیز اشاعرہ کے بعض مسائل تو ایسے ہیں کہ ماتریدیہ کبھی بھی اس کے قائل نہیں رہے ۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ  کیا خدا کے کام حکمت پر مبنی ہیں ؟ اس مسئلہ کے تحت عموما رجحان یہی ہے کہ اس بات کی نفی کی جائے کیونکہ شرح عقائد اور اس جیسی اشعری کتابوں میں اس کا انکار کیا گیا ہے چنانچہ اس کی نفی کر دی جاتی ہے یہی نہیں بلکہ قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی یہ بات کا ذکر آتا ہے کہ اللہ تعالی نے تمہارے فائدہ کے لیے ان چیزوں کو پیداکیا تو وہاں پر تاویل ضرور کی جاتی ہے یہ بات اچھے طریقہ سے سمجھ لینی چاہیے کہ یہ نظریہ اشاعرہ کا ہے ماتریدیہ نے اس کو کبھی بھی تسلیم نہیں کیا ۔ ماتریدیہ ہمیشہ اسی کے قائل رہے ہیں کہ خدائی کام خالی از حکمت نہیں بلکہ پر از حکمت ہیں حتی کہ عبادات تک حکمت سے خالی نہیں ،یہ مسئلہ دور رس نتائج کا حامل ہے ۔

چوتھامسئلہ:

            شرح عقائد میں کچھ مباحث نہایت شاندار ہیں مثلا یہ کہ علم  حاصل ہونے کے ذرائع کیا کیا ہیں ۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ اگر صحیح طور پر معلوم ہوجائے تو بڑے بڑے دہریت زدہ افراد کے سمجھانے میں بڑی مدد کرسکتا ہے جو سائنس کی وجہ سے دین میں شک کرنے لگے ہیں ۔ ان کا کہنا ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ سائنسی  کی اعلی درجہ کی تحقیقات کے بعد اس مسئلہ کو کیسے مانا جائے ۔ ان کے سامنے یہ بات رکھی جاسکتی ہے کہ کس وجہ سے ہم کسی کی بات کو مانتے ہیں ۔ یعنی حقیقی ذرائع علم کیا ہیں ۔

شرح عقائد اور مسائل توحید

            اسی طرح  شرح عقائد میں توحید کے مسائل میں ایسے مسائل کا ذکر ملتا  ہے جو ہمارے زمانہ میں بالکل ناپید ہیں ،لہذا تاریخی اعتبار سے ان کی وضاحت تو ہونی چاہیے  لیکن توحید حقیقی بھی سمجھانی چاہیے  ،پاک وہند میں   میں توحید جیسے اہم موضوع کو اختلاف کا شکار بنادیا گیا ہے ۔ توحید پر اتفاق کے بعد اس کی تشریحات میں اختلاف ڈالا گیا ہے ۔لہذا ضروری ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ نبی کریم ﷺنے جن کے سامنے توحید بیان کی تھی ان کے عقائد اور نظریات کیا تھے ۔ اور قرآن کریم نے توحید کو کس انداز سے بیان کیا ہے ۔

الحاد اور دہریت کے خلاف کام کی ضرورت

            اس کے ساتھ ساتھ ایک اور بنیادی چیز جس کی بہت ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ جس زمانہ میں شرح عقائد لکھی گئی تھی اس کتاب نے اپنے زمانے کی ضروریات کو پورا کیا تھا ۔ لیکن ہمارے زمانہ کی ضروریات بدل رہی ہیں ۔ مثلا ایک بہت بڑا فتنہ جو عوام کو درپیش ہے وہ الحاد اور دہریت کا ہے ۔ جدت  کی بنا پر الحاد اور دہریت کا ایک سیلاب ہے جو مسلمان گھرانوں میں داخل ہورہا ہے   ،کالج اور یونیورسٹیوں کے کئی طلبہ دین  کے بنیادی عقائد میں شک کرنے لگے  ہیں ۔اب مسئلہ خدا کی صفات اور اس کی وضاحت کا نہیں رہا اب مسئلہ خدا کی ذات تک جا پہنچا ہے اسے بد بختی کہیں یا جو بھی لیکن وہ سوال کرنے لگے ہیں کہ کیا  خدا موجود ہے ؟کیا قرآن ہماری رہنمائی کے لیے کافی ہے ۔ شراب کیوں حرام ہے ۔ بے حیائی کیوں حرام ہے اور کتنے ایسے سوال ہیں جن کے متعلق شک کی مجال بھی نہیں ہونی چاہیے تھی لیکن اب  وہ بر زبان ہوتے ہیں ۔ ایسے اساتذہ بھی موجود ہیں جو کھلے عام طلبہ کو شراب نوشی اور بے حیائی کی تلقین کرتے ہیں ۔ اور خدا فراموشی بلکہ خدا کے وجود کے بارے میں شک کا بیج ڈالنے کی پوری کوششوں میں ہیں ۔

            خاص طور پر جبکہ ہم اس مسئلہ پر آفاقی نظر ڈالتے ہیں تو معاملہ کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہوجاتا ہے ظاہر ہے مدارس میں  عقائد کے متعلق کتاب پڑھانے کا مقصد صرف یہی نہیں کہ طلبہ کا اپنا عقیدہ پختہ ہو بلکہ ساتھ ہی ساتھ یہ مقصد بھی ہے کہ طلبہ مستقبل میں دعوتی میدانوں میں قدم رکھ سکیں ۔ اور لوگوں کی درست سمت راہنمائی کر سکیں اور دنیا کی حالت زار یہ ہے کہ اس وقت مسلمان کل انسانی آبادی کا 18 فیصدہیں جبکہ  لامذہب اورد ہری کل آبادی کا 16 فیصد ہیں ۔ اور مسلسل ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے ۔  پس ضروری ہے کہ دین کے حقیقی بنیادی مسائل اور عقائد کی طرف توجہ کی جائے اور طلبہ کو اس کی تیاری کروائی جائے ۔

ایسی صورت حال میں اس بات کی ضرورت  بہت زیادہ ہے کہ دین کے بنیادی مسائل پر طلبہ کو دلائل مہیا کیے جائیں مثلا

خدا کے وجود کے دلائل ۔ فلسفی ، سائنسی ، منطقی سماجی وغیرہ

آخرت کے ثبوت کی دلیل ۔ عقلی فلسفی سائنسی وغیرہ ۔

قرآن اللہ کی کتاب ہے ۔ اس پر دلائل ۔

خلاصہ یہ کہ شرح عقائد پڑھاتے وقت جو غلطی ہوجاتی ہے وہ یہ ہے کہ :

1.     فلسفہ اور علم کلام کا مکمل پس منظر معلوم نہیں ہوتا ۔

2.     شرح عقائد کے ان مسائل میں فرق نہیں کیا جاتا جن کے اشاعرہ قائل تھے لیکن ماتریدیہ کبھی قائل نہیں رہے

3.     مباحث کی جدید صورتیں زیر نظر نہیں ہوتیں اور نہ ان کی طرف توجہ ہوتی ہے ۔

4.     جدید ضروریات جیسے دہریت وغیرہ   ان کے دلائل  اور ان کے جواب کو ساتھ نہیں پڑھایا جاتا ۔

اس صورت حال کا ممکنہ حل یہ ہے کہ :

1.     طلبہ کو مقدمہ کے طور پر علم کلام سے روشناس کروایا جائے ۔ جس میں ایک اچھا اور کامل تعارف شامل ہو ۔

2.     جو مسائل اب بھی موجود ہیں لیکن ان کی صورت گری تبدیل ہوگئی ہے ان کی بارے میں طلبہ کو علم دیا جائے

3.     زمانہ کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے الحاد اور دہریت ،لبر ازم وغیرہ ان کی تعریفات، دلائل اور جواب بتلائے جائیں ۔

4.     جن مسائل میں اشاعرہ اور ماتریدیہ کا اختلاف ہے حنفی ہونے کی حیثیت سے اس کی وضاحت کی جائے ۔

5.     طلبہ کی ایسی کتابوں کی طرف رہنمائی کی جائے جن سے ان کے علم میں درست سمت میں اضافہ ممکن ہوسکے ۔

اس موضوع پر کتابیں ۔

اس موضوع پر کچھ کتابیں :

1.     الدین القیم : مولانا سید مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ جو نامور مؤرخ ہونے کے ساتھ ساتھ پایہ کے فلسفی بھی تھے ۔ ان کی یہ کتاب جدید علم کلام کی  مباحث سے لبریز ہے ۔

2.     الکلام اور علم الکلام: علامہ شبلی نعمانی کے معرکۃ الاراء کتاب جس میں نہایت جاندار اورعلمی انداز سے علم کلام کی تاریخ مسائل اور ان کی ابتدائی صورتیں ،اشاعرہ اور ماتریدیہ  کی تعریف اور   مسائل میں اختلاف کی نوعیت جیسے مسائل کا ذکر ہے ۔اگر علامہ شبلی کی بعض باتوں سے علماء کو اختلاف بھی ہے لیکن پھر بھی یہ کتا ب نہایت قابل قدر کتابوں میں سے ایک ہے ۔

3.     علم جدید کا چیلنج: مولانا وحید الدین خان صاحب  کی یہ کتاب اپنے موضوع پر بہت بلند پایہ کتابوں میں شمار ہوتی ہے ۔ مولانا نے اس کتاب میں زبان وقلم کی ادبی لطافتوں  کے ساتھ دہریت کا مقدمہ اور اس کا جواب اور  اسلام کی حقانیت پیش کی ہے  نیز جدید سائنس سے  خدا کے وجود  کے دلائل ،آخرت کا ثبوت ،رسول کی ضرورت جیسے مسائل کو ذکر کیا ہے ۔ ۔ مولانا کی بہت سی باتوں سے اختلاف کیا گیا ہے لیکن یہ کتاب ان کے ایسے تفردات سے مکمل طور پر بری ہے ۔

4.     اسلام اور عقلیات ۔ از مولانا وحید الدین خان ۔

5.     تنقیحات ۔ مولانا مودودی مرحوم ۔ تنقیحات مولانا مودودی کے ان مقالات کا مجوموعہ ہے جو یورپ اور اس کے کلچر کے خلاف لکھے گئے تھے ۔ مولانا نے ان میں جدت کا رد بہت احسن انداز سے کیا ہے ۔

6.     ہارون یحی کی کتب:ہارون یحی نے اپنی کتابوں میں خاص طور پر مادیت کا رد کیا ہے ، جہاں وہ خدا کی خالقیت کے دلائل ذکر کرتے ہیں۔ ہاروں یحیی بھی ہمارے زمانے کے ان متکلمین میں سے ہیں جنہوں نے مادیت کے رد میں بہت کام کیا ہے ۔ ان کی ذات کو چھوڑ کر ان کے کام کی حیثیت بہت زیادہ ہے ۔

7.     قرآن اور  علم جدید ۔ ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم ۔ اس کتاب میں وہ کچھ ہے جو دیگر اردو کی کسی کتاب میں نہیں ہے ۔ یعنی جدید فلاسفہ کے فلسفوں کا ذکر اور ان پر تنقید اور اسلامی نظریہ کی وضاحت ۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم کے بعض نظریات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن بنیادی کام بہت اچھا ہے  اور وقت کی ضرورت بھی ۔

8.     الحادایک تعارف۔ یہ ایک مختصر کتاب ہے جس تین حضرات کے مقالات کا مجموعہ ہے ۔ کتاب اپنے موضوع پر لاجواب ہے ۔ اور الحاد پر اردو میں لکھی جانے والی چند بہترین کتابوں میں شمار ہوتی ہے ۔