شرح عقائد ایک نصابی کتاب ہے جس کا آدھے
سے زیادہ حصہ فلسفیانہ مباحث سے پر ہے ۔ اس سے مکمل استفادہ اور اس کا افادہ تبھی ممکن ہے جب پہلے فلسفہ کے
مسا ئل اور ان کے سیاق سےاچھا علم ہو ۔
بنیادی مسئلہ :
بنیادی مسئلہ جو پیش آتا ہے وہ یہ ہے کہ شرح عقائد کی تدریس کے دوران اسی بات کا علم
نہیں ہوتا کہ کون سے مسائل آج بھی توجہ طلب ہیں
اور کون سے مسائل صرف تاریخ کا حصہ بن کر رہ گئے ہیں اسی طرح کن مسائل کی
جگہ نئے مسائل نے لے لی ہے ،اور ہمارے زمانے کے علماء ان مسائل کو کس نظر سے
دیکھتے ہیں ۔ ان باتوں کا علم بہت ضروری ہے ہم اس مسئلہ کی وضاحت ایک مثال سے کرتے ہیں
مثلاًشرح عقائد کا پہلا مسئلہ یہ ہےکہ اشیاء کے حقائق ثابت ہیں ۔ جس کا مطلب ہے کہ ہمیں جو چیزیں نظر آتی
ہیں یہ حقیقت میں موجود ہیں یہ محض خیال
نہیں ہیں یافلسفہ کی مشہور زبان میں یوں کہیں کہ مادہ موجود ہے ۔ اس پرعلامہ تفتازانی نے ابتدا میں ان فلاسفہ کے
نظریات ذکر کیے ہیں جو حقائق اشیاء کے منکر ہیں پھر ان کے گروہوں کو ذکر کر کے ان
پر رد کیا ہے ۔ یہاں دو باتیں قابل غور ہیں :
1. پہلی یہ کہ مادہ موجود ہے اس کا تعلق فلسفہ سے اور پھر علم کلام سے کیسے ہے ؟
2. دوسرا یہ کہ ہمارے زمانہ میں اس مسئلہ کی اہمیت کیا ہے اور اس مسئلہ کے متعلق اہل علم کی رائے کیا ہے ؟
پہلے سوال کا جواب میں ہمیں
ضرورت ہے کہ فلسفہ کی مختصر تاریخ معلوم یہاں اس کا جواب مختصر الفاظ میں کچھ یوں
ہے کہ شروع سے آج تک فلسفہ میں دو نظریات ساتھ ساتھ چلتے آئے ہیں ایک یہی کہ اشیاء حقیقی حیثیت میں
موجود ہیں اور دوسرا یہ کہ اشیاء اضافی ہیں بالفاظ دیگر مادہ موجود ہے یا مادہ فریب نظر ہے ۔
رہا اسکا علم کلام سے تعلق تو اس کی حقیقت سمجھنے کے لیے علم کلام کی تاریخ کا علم ہونا
ضروری ہے جسے خوبصورت انداز ے مولانا شبلی نعمانی مرحوم نے الکلام اور علم الکلام
میں ذکر کردیا ہے ۔
دوسرے سوال کا جواب یہ ہےکہ قدیم
زمانہ کی طرح جدید سائنس میں بھی یہ مسئلہ
معرکۃ الآراء ثابت ہوا ہے ۔ نیوٹن کے زمانے کو مادی زمانہ مانا جاتا ہے
جبکہ آئن سٹائن کے زمانہ سے مادہ کی حقیقت بکھر کر رہ گئی ہے ۔(جس کی تفصیل کا
یہاں موقع نہیں) پھر الحاد اور دہریت کی جڑیں مادہ کے ساتھ بہت گہرا تعلق رکھتی
ہیں ۔آپ نے مادہ پرستی کا لفظ تو بار بار سنا ہی ہو گا اس کا تعلق بھی حقائق
الاشیاء کے ساتھ ہی ہے ۔ قریب زمانہ تک سائنس نے اس بات کو بہت زور وشور سے بیان
کیا کہ مادہ موجود ہے، مادہ ہی حقیقت
مطلقہ ہے اور سب کچھ مادہ ہی کی کارفرمائی
اور جلوہ گری ہے ۔
مادہ کو اس طرح ماننے سے جو برگ وبار آئے وہ کچھ یوں تھے کہ :
1. خدا کا انکار کیا گیا کیونکہ مادہ نظر آتا ہے اور خدا نظر نہیں آتا۔
2. دینا کی تخلیق مادہ ہی کی دین ہے گویا مادہ ہی اس کا خالق
ہے ۔
3. معجزات کا انکار کیا گیا کیونکہ مادی دنیا ایک نظام میں بندھی ہوئی ہے
معجزہ کا مطلب ہے اس مادی نظام کو توڑنا جو کہ محال ہے ۔
4. مادہ کے ازلی ہونے کا اقرار کیونکہ ان کے نزدیک مادہ کبھی
پیدا نہیں ہوا یہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
جب مادہ کو
ماننے کی وجہ سے ایسے نتائج حاصل ہونے لگے تو اس زمانے کے متکلمین حضرا ت نے ضروری سمجھا کہ مادہ پر ضرب کاری لگائی جائے اور اس کی پوزیشن
کو واضح کیا جائے ۔ غور فرمائیں شرح عقائد کے پہلے مسئلہ"
حقائق الاشیاء ثابتۃ "کی صورت یہاں
آکر بدل جاتی ہے پہلے تک جس مسئلہ پر زور تھا کہ مادہ موجود ہے اب جدید متکلمین اس
کا انکار کرنے لگے کہ ضرورت ہی بدل گئی ہے ۔
اس مسئلہ کی تنقیح کے لیے مولانا سید مناظر احسن
گیلانی رحمہ اللہ کی کتاب الدین القیم کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔اس کے ساتھ ساتھ
دہریت کے خلاف کام کرنے والی مشہور شخصیت ہارون یحی کی کتب میں بھی یہ مسئلہ تفصیل
سے اور سائنسی انداز میں موجود ہے ۔ اب آپ دوبارہ غور فرمائیں کہ حقائق
الاشیاء کا مسئلہ کیا حقیقت رکھتا ہے ۔اور کیا منکرین مادہ کا جس انداز سے علامہ
تفتازانی نےان کا رد کیا ہے کیا وہ ہمارے زمانہ میں بھی اسی قابل ہے ۔ نیز
اگر یہ فلسفہ مکمل طور پر قابل رد ہے تو
ہمارے زمانہ میں بڑے مسلم فلاسفہ اسی نظریہ کے تحت کیسے اسلام کا دفاع کر رہے ہیں
۔ ان سوالات کے جوابات وہی استاذ دے سکتا
ہے جس کا تعلق فلسفہ اور علم کلام کےساتھ بھی ہو اور ساتھ ہی ساتھ جدید کتب کا
مطالعہ بھی رکھتا ہو۔
عقائد کی تاریخ جاننے کی ضرورت :
ایک اور چیز جس کی بہت ضرورت ہے وہ عقائد کی
تاریخ ہے ۔عموما ًشرح عقائد سے پہلے مدارس میں ایسی کوئی کتاب نہیں پڑھائی جاتی جس
میں شرح عقائد میں موجود نظریات کی تاریخ کا ذکر ہو۔ علامہ تفتازانی نے شروع میں
اختصار کے ساتھ یہ بات بیان کی ہے کہ عقائد کے متعلقہ مسائل کیسے پیدا ہوئے اور
کیسے کیسے یہ علم علم کی صورت اختیار کرتا گیا ۔لیکن اس میں کافی اختصار ہے ۔ جب
کہ ضرورت اس سے کہیں زیادہ ہے ۔ اس موضوع پر علامہ شبلی نعمانی مرحوم کی کتاب
الکلام اور علم الکلام ایک لاجواب کتاب ہے ۔
شرح عقائد میں اشعریہ طرز فکر اور ماتریدیہ
ایک مسئلہ یہ ہے کہ شرح عقائد طریقہ اشعریہ پر لکھی گئی ہےاور
پڑھائی حنفی مدارس میں جارہی ہے جنہیں ماتریدی نظریات کا حامل ہونا چاہیے ۔ کبھی
یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ اشاعرہ اور ماتریدیہ میں کوئی زیادہ فرق نہیں ۔ لیکن شاید
یہ کہنا ٹھیک نہ ہو ہمارے زمانہ میں دو مسائل میں بھی اختلاف ہوجائے تو فرقہ کہہ
کر جدا کردیا جاتا ہے یہاں تو دس سے زیادہ
مسائل میں اختلا ف پایا جاتا ہے ۔ نیز اشاعرہ کے بعض مسائل تو ایسے ہیں کہ
ماتریدیہ کبھی بھی اس کے قائل نہیں رہے ۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ کیا خدا کے کام حکمت پر مبنی ہیں ؟ اس مسئلہ کے
تحت عموما رجحان یہی ہے کہ اس بات کی نفی کی جائے کیونکہ شرح عقائد اور اس جیسی
اشعری کتابوں میں اس کا انکار کیا گیا ہے چنانچہ اس کی نفی کر دی جاتی ہے یہی نہیں
بلکہ قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی یہ بات کا ذکر آتا ہے کہ اللہ تعالی نے تمہارے
فائدہ کے لیے ان چیزوں کو پیداکیا تو وہاں پر تاویل ضرور کی جاتی ہے یہ بات اچھے
طریقہ سے سمجھ لینی چاہیے کہ یہ نظریہ اشاعرہ کا ہے ماتریدیہ نے اس کو کبھی بھی
تسلیم نہیں کیا ۔ ماتریدیہ ہمیشہ اسی کے قائل رہے ہیں کہ خدائی کام خالی از حکمت
نہیں بلکہ پر از حکمت ہیں حتی کہ عبادات تک حکمت سے خالی نہیں ،یہ مسئلہ دور رس
نتائج کا حامل ہے ۔
چوتھامسئلہ:
شرح عقائد میں کچھ مباحث
نہایت شاندار ہیں مثلا یہ کہ علم حاصل
ہونے کے ذرائع کیا کیا ہیں ۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ اگر صحیح طور پر معلوم
ہوجائے تو بڑے بڑے دہریت زدہ افراد کے سمجھانے میں بڑی مدد کرسکتا ہے جو سائنس کی
وجہ سے دین میں شک کرنے لگے ہیں ۔ ان کا کہنا ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ سائنسی کی اعلی درجہ کی تحقیقات کے بعد اس مسئلہ کو
کیسے مانا جائے ۔ ان کے سامنے یہ بات رکھی جاسکتی ہے کہ کس وجہ سے ہم کسی کی بات
کو مانتے ہیں ۔ یعنی حقیقی ذرائع علم کیا ہیں ۔
شرح عقائد اور مسائل توحید
اسی طرح شرح عقائد میں توحید کے مسائل میں ایسے مسائل
کا ذکر ملتا ہے جو ہمارے زمانہ میں بالکل
ناپید ہیں ،لہذا تاریخی اعتبار سے ان کی وضاحت تو ہونی چاہیے لیکن توحید حقیقی بھی سمجھانی چاہیے ،پاک وہند میں میں توحید جیسے اہم موضوع کو اختلاف کا شکار
بنادیا گیا ہے ۔ توحید پر اتفاق کے بعد اس کی تشریحات میں اختلاف ڈالا گیا ہے
۔لہذا ضروری ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ نبی کریم ﷺنے جن کے سامنے توحید بیان کی تھی
ان کے عقائد اور نظریات کیا تھے ۔ اور قرآن کریم نے توحید کو کس انداز سے بیان کیا
ہے ۔
الحاد اور دہریت کے خلاف کام کی ضرورت
اس کے ساتھ ساتھ ایک اور
بنیادی چیز جس کی بہت ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ جس زمانہ میں شرح عقائد لکھی گئی تھی
اس کتاب نے اپنے زمانے کی ضروریات کو پورا کیا تھا ۔ لیکن ہمارے زمانہ کی ضروریات
بدل رہی ہیں ۔ مثلا ایک بہت بڑا فتنہ جو عوام کو درپیش ہے وہ الحاد اور دہریت کا
ہے ۔ جدت کی بنا پر الحاد اور دہریت کا
ایک سیلاب ہے جو مسلمان گھرانوں میں داخل ہورہا ہے ،کالج اور یونیورسٹیوں کے کئی طلبہ دین کے بنیادی عقائد میں شک کرنے لگے ہیں ۔اب مسئلہ خدا کی صفات اور اس کی وضاحت کا
نہیں رہا اب مسئلہ خدا کی ذات تک جا پہنچا ہے اسے بد بختی کہیں یا جو بھی لیکن وہ
سوال کرنے لگے ہیں کہ کیا خدا موجود ہے
؟کیا قرآن ہماری رہنمائی کے لیے کافی ہے ۔ شراب کیوں حرام ہے ۔ بے حیائی کیوں حرام
ہے اور کتنے ایسے سوال ہیں جن کے متعلق شک کی مجال بھی نہیں ہونی چاہیے تھی لیکن
اب وہ بر زبان ہوتے ہیں ۔ ایسے اساتذہ بھی
موجود ہیں جو کھلے عام طلبہ کو شراب نوشی اور بے حیائی کی تلقین کرتے ہیں ۔ اور
خدا فراموشی بلکہ خدا کے وجود کے بارے میں شک کا بیج ڈالنے کی پوری کوششوں میں ہیں
۔
خاص طور پر جبکہ ہم اس
مسئلہ پر آفاقی نظر ڈالتے ہیں تو معاملہ کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہوجاتا ہے ظاہر
ہے مدارس میں عقائد کے متعلق کتاب پڑھانے
کا مقصد صرف یہی نہیں کہ طلبہ کا اپنا عقیدہ پختہ ہو بلکہ ساتھ ہی ساتھ یہ مقصد
بھی ہے کہ طلبہ مستقبل میں دعوتی میدانوں میں قدم رکھ سکیں ۔ اور لوگوں کی درست
سمت راہنمائی کر سکیں اور دنیا کی حالت زار یہ ہے کہ اس وقت مسلمان کل انسانی
آبادی کا 18 فیصدہیں جبکہ لامذہب اورد ہری
کل آبادی کا 16 فیصد ہیں ۔ اور مسلسل ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ پس ضروری ہے کہ دین کے حقیقی بنیادی مسائل اور
عقائد کی طرف توجہ کی جائے اور طلبہ کو اس کی تیاری کروائی جائے ۔
ایسی صورت حال میں اس بات کی
ضرورت بہت زیادہ ہے کہ دین کے بنیادی
مسائل پر طلبہ کو دلائل مہیا کیے جائیں مثلا
خدا کے وجود کے دلائل ۔ فلسفی ،
سائنسی ، منطقی سماجی وغیرہ
آخرت کے ثبوت کی دلیل ۔ عقلی
فلسفی سائنسی وغیرہ ۔
قرآن اللہ کی کتاب ہے ۔ اس پر
دلائل ۔
خلاصہ یہ کہ شرح عقائد پڑھاتے وقت
جو غلطی ہوجاتی ہے وہ یہ ہے کہ :
1. فلسفہ اور علم کلام کا مکمل پس منظر معلوم نہیں ہوتا ۔
2. شرح عقائد کے ان مسائل میں فرق نہیں کیا جاتا جن کے اشاعرہ
قائل تھے لیکن ماتریدیہ کبھی قائل نہیں رہے
3. مباحث کی جدید صورتیں زیر نظر نہیں ہوتیں اور نہ ان کی طرف
توجہ ہوتی ہے ۔
4. جدید ضروریات جیسے دہریت وغیرہ ان کے
دلائل اور ان کے جواب کو ساتھ نہیں پڑھایا
جاتا ۔
اس صورت حال کا ممکنہ حل یہ ہے کہ :
1. طلبہ کو مقدمہ کے طور پر علم کلام سے روشناس کروایا جائے ۔
جس میں ایک اچھا اور کامل تعارف شامل ہو ۔
2. جو مسائل اب بھی موجود ہیں لیکن ان کی صورت گری تبدیل ہوگئی
ہے ان کی بارے میں طلبہ کو علم دیا جائے
3. زمانہ کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے الحاد اور دہریت
،لبر ازم وغیرہ ان کی تعریفات، دلائل اور جواب بتلائے جائیں ۔
4. جن مسائل میں اشاعرہ اور ماتریدیہ کا اختلاف ہے حنفی ہونے
کی حیثیت سے اس کی وضاحت کی جائے ۔
5. طلبہ کی ایسی کتابوں کی طرف رہنمائی کی جائے جن سے ان کے
علم میں درست سمت میں اضافہ ممکن ہوسکے ۔
اس موضوع پر کتابیں ۔
اس موضوع پر کچھ کتابیں :
1. الدین القیم : مولانا سید مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ جو
نامور مؤرخ ہونے کے ساتھ ساتھ پایہ کے فلسفی بھی تھے ۔ ان کی یہ کتاب جدید علم
کلام کی مباحث سے لبریز ہے ۔
2. الکلام اور علم الکلام: علامہ شبلی نعمانی کے معرکۃ الاراء
کتاب جس میں نہایت جاندار اورعلمی انداز سے علم کلام کی تاریخ مسائل اور ان کی
ابتدائی صورتیں ،اشاعرہ اور ماتریدیہ کی
تعریف اور مسائل میں اختلاف کی نوعیت
جیسے مسائل کا ذکر ہے ۔اگر علامہ شبلی کی بعض باتوں سے علماء کو اختلاف بھی ہے
لیکن پھر بھی یہ کتا ب نہایت قابل قدر کتابوں میں سے ایک ہے ۔
3. علم جدید کا چیلنج: مولانا وحید الدین خان صاحب کی یہ کتاب اپنے موضوع پر بہت بلند پایہ کتابوں
میں شمار ہوتی ہے ۔ مولانا نے اس کتاب میں زبان وقلم کی ادبی لطافتوں کے ساتھ دہریت کا مقدمہ اور اس کا جواب اور اسلام کی حقانیت پیش کی ہے نیز جدید سائنس سے خدا کے وجود
کے دلائل ،آخرت کا ثبوت ،رسول کی ضرورت جیسے مسائل کو ذکر کیا ہے ۔ ۔
مولانا کی بہت سی باتوں سے اختلاف کیا گیا ہے لیکن یہ کتاب ان کے ایسے تفردات سے
مکمل طور پر بری ہے ۔
4. اسلام اور عقلیات ۔ از مولانا وحید الدین خان ۔
5. تنقیحات ۔ مولانا مودودی مرحوم ۔ تنقیحات مولانا مودودی کے
ان مقالات کا مجوموعہ ہے جو یورپ اور اس کے کلچر کے خلاف لکھے گئے تھے ۔ مولانا نے
ان میں جدت کا رد بہت احسن انداز سے کیا ہے ۔
6. ہارون یحی کی کتب:ہارون یحی نے اپنی کتابوں میں خاص طور پر
مادیت کا رد کیا ہے ، جہاں وہ خدا کی خالقیت کے دلائل ذکر کرتے ہیں۔ ہاروں یحیی
بھی ہمارے زمانے کے ان متکلمین میں سے ہیں جنہوں نے مادیت کے رد میں بہت کام کیا
ہے ۔ ان کی ذات کو چھوڑ کر ان کے کام کی حیثیت بہت زیادہ ہے ۔
7. قرآن اور علم جدید
۔ ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم ۔ اس کتاب میں وہ کچھ ہے جو دیگر اردو کی کسی کتاب میں
نہیں ہے ۔ یعنی جدید فلاسفہ کے فلسفوں کا ذکر اور ان پر تنقید اور اسلامی نظریہ کی
وضاحت ۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم کے بعض نظریات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن بنیادی کام بہت
اچھا ہے اور وقت کی ضرورت بھی ۔
8. الحادایک تعارف۔ یہ ایک مختصر کتاب ہے جس تین حضرات کے
مقالات کا مجموعہ ہے ۔ کتاب اپنے موضوع پر لاجواب ہے ۔ اور الحاد پر اردو میں لکھی
جانے والی چند بہترین کتابوں میں شمار ہوتی ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں