ہفتہ، 19 اگست، 2023

دینی مدارس کے طلبہ اور جدید معاشرے سے ہم آہنگی مسائل اور تجاویز


 

مدارس دینیہ کے طلبہ خالصتاً دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔  تعلیمی سرگرمیوں میں انہیں قدیم   نصاب تعلیم ، قدیم  کتب، قدیم انداز تعلیم کے ساتھ پڑھنے کو ملتی ہیں ۔ ماحول میں عربی اور فارسی ملی ہوئی اردو کا استعمال غالب رہتاہے  جس میں منطقی، نحوی، صرفی اور بلاغی اصطلاحات کی خوشبو بھی شامل ہوتی ہے  ۔اسی وجہ سے مدارس عربیہ کے طلبہ جب اردو کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو انہیں ادبی اردو پڑھنے میں مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑھتا ۔ نیز اردو ادب میں ترقی کے مواقع بھی روشن ہوتے ہیں ۔

اس زبان وبیان کے ساتھ ساتھ طلبہ کو دینی ماحول  میں وقت گزارنے کا موقع ملتا ہے جس میں انہیں نیکی اورخدا ترسی ،  احتساب نفس اور للہیت ،اساتذہ اور بڑوں کا ادب کرنا  جیسے بہت سے اخلاقیات  سیکھائے جاتے ہیں  ۔

باوجودیکہ یہ سب چیزیں ایک مسلم اور پاک وہند کے اسلامی دینی معاشرے میں کلیدی حیثیت کا درجہ رکھتی ہیں اور ان کے فوائد بے بہا ہیں  اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ دینی طلبہ جدید  تہذیب اور موجودہ ماحول  اور معاشرے   سے مکمل طور پر بے خبر ہوتے ہیں ۔

انہیں معاشرے کی علمی زبان وبیان سے واقفیت حاصل نہیں ہوتی ۔ اکثر وبیشتر وہ  جدید تعلیم یافتہ لوگوں کی بات سمجھنے سے نا صرف یہ کہ قاصر رہتے ہیں بلکہ قدرے مرعوب بھی نظر آتے ہیں  معمولی انگلش  اور کچھ جدید معاشرتی اصطلاحات سے ناواقفیت  ان میں قدرے احساس کمتری پیدا کرتی ہیں چنانچہ اگر کوئی ڈاکٹر ، انجیئنر وغیرہ ان سے بات کررہا ہوتو ان میں اکثر خود اعتمادی کا فقدان نظر آتا ہے ۔ ایسے حضرات سے بات کرتے ہوئے یا وہ پریشان ہونے لگ جاتے ہیں یا بہت جلد غصہ میں آجاتے ہیں ۔

کبھی  کچھ  اساتذہ کی طرف سے طلبہ کے ذہنوں میں جدید علوم ، طریقہ تعلیم ،جدید تعلیم کی درسگاہوں اور ان سے فارغ التحصیل حضرات کے بارے میں تحقیر آمیز رویہ ڈالا جاتا ہے   جس معاشرے میں  ملا اور مسٹر کی ایک کشمش جنم لیتی ہیں ۔اس کشمکش کی ساری ذمہ داری مدارس پر نہیں ڈالی جاسکتی بے شک دوسری طرف بھی ایک طویل عرصہ تک ایسا ہوتا آیا ہے کہ وہ حضرات اہل مدارس کو جاہل ، ناکارہ ، بد اخلاق وغیرہ جیسے القاب سے ملقب کرتے رہے ہیں  لیکن اہل مدارس مکمل طور پر اس  الزام سے مبرا بھی  نہیں ہیں ۔

غرض مدارس کے ماحول اور موجودہ معاشرے کے اختلاف اور اسے نہ جاننے کی وجہ سے  تعلیم وتبلیغ کے میدان میں ایک خلا پیدا ہو جاتا ہے ۔ دینی حلقوں کے فاصلے عوام سے بڑھنے لگتے ہیں دونوں کو ایک دوسرے کی بات سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے ۔ کبھی دو اطراف میں ایک دوسرے کے لیے تحقیر آمیز سلوک روا رکھا جاتا ہے اور  شکوہ شکایات بڑھ جاتے ہیں ۔

چونکہ دینی مدارس کے طلبہ معاشرے کی تربیتی  لگامیں  اپنی ہاتھوں میں تھامنے  کا ارادہ رکھتے ہیں اور فراغت کے بعد انہیں عوام کی تعلیم وتربیت اور تبلیغ دین جیسے فرائض منصبی  ادا کرنے ہیں  لہذا اپنے معاشرے کی زبان کو جاننا عوام کے مزاج کو سمجھنا اور ان کی زبان میں انہیں تبلیغ کرنا جس میں کسی قسم کی اجنبیت نا پائی جائے ان کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے ۔

زبان وبیان کے فاصلوں کو مٹانے اور طلبہ کو جدید ماحول میں آسانی اور خود اعتمادی کے ساتھ دعوت وتبلیغ کا کام کرنے کے لیے چند چیزوں کے جاننے کی ضرورت ہے  جن میں سے دو چیزیں اہم ہیں :

·       معاشرے کی ضرورت کے بقدر انگلش زبان کا جاننا۔

·       معاشرتی اصطلاحات سے واقفیت حاصل کرنا ۔

·       دعوتی منہج کو پہچاننا اور بروئے کار لانا۔

·       معاصر طرز  تکلم  سے آگاہی اور اس کا استعمال ۔

·       آداب اختلاف کو پہچاننا اور بروئے کار لانا۔

ضرورت کےبقدرانگلش زبان سیکھنا

عوام عموماً دو طرح کی انگلش زبان استعمال کرتی ہے ۔ ایک جسے عام بول چال کی زبان کہا جاتا ہے اس کے بہت سے الفاظ ہمارے معاشرے میں رائج ہیں ۔ دوسری اصطلاحاتی انگلش  مثلاً اگر کوئی ڈاکٹر ہے  تو وہ اپنی بول چال میں ٹھیک اسی طرح میڈیکل کی اصطلاحات استعمال کرتا ہے جیسے مدارس میں طلبہ منطق اور بلاغت کی اصطلاحات استعمال کرتے ہوئے آپس میں باتیں کرتے ہیں ۔یہی حال ہر فیلڈ کا ہے ۔

انگریزی زبان

پہلی قسم کی انگلش کو  سیکھنے کا طریقہ نہایت سادہ ہے  اوروہ یہ کہ انگلش زبان سیکھی جائے ۔ دوسری قسم کی انگلش  حقیقت میں انگلش نہیں ہے لیکن ان میں سے کئی باتوں کو معاشرتی علوم کے تحت سیکھا جاسکتا ہے ۔

معاشرتی  علوم و اصطلاحات

جہاں تک معاشرتی اصطلاحات سے  واقفیت کا مسئلہ ہے تو اس سے  مراد یہ ہے کہ  طلبہ  اس بات کا علم حاصل کریں کہ  ہمارے معاشرے میں کیا کچھ رائج ہے اس ضمن میں جو کچھ جاننے کی ضرورت ہے اسے درج ذیل میں لکھا جاتا ہے :

1.     ریاست اور حکومت کیسے کام کرتی ہے  اس کے بنیادی ادارے کون کون سے ہیں ۔ہر ادارے کا نام انگلش اور اردو دونوں میں سیکھا جائے ۔   پاکستا ن میں جمہوری نظام رائج ہونے کی وجہ سے جمہوریت کی معلومات دی جائیں کہ ایم ان اے ، ایم پی اے  کا کیا مطلب ہے ، اسمبلی پارلیمنٹ کیا ہیں پاکستان میں وزیر اعظم بننے کی کیا شرائط ہیں ۔ صدر کا کیا کام ہےتا کہ  فراغت کے بعد جو طلبہ سیاست میں شمولیت اختیار کرنا چاہیں ان کے لیے آگے بڑھنے میں کوئی دقت نا ہو۔ اسی طرح ہر شعبہ کی بنیادی معلومات ۔

2.     ضروری قانونی آگاہی حاصل کی جائے  ۔ عدالتی نظام کیسے کام کرتا ہے ۔ پاکستان کا آئین  اور قانون کی ضروری معلوم سے واقفیت ہونا ضروری ہے ۔ اسی طرح پولیس کا محکمہ کیسے کام کرتا ہے ایف آئی آر کیا ہوتی ہے

3.     مختلف عہدوں سے واقفیت حاصل کی جائے مثلاً کمشنر کسے کہتے ہیں ، اس کا کام کیا ہوتا ہے ؟آئی جی کیا ہوتا ہے ڈی آئی جی کسے کہتے ہیں ؟نیز ان عہدوں تک کیسے پہنچا جاتا ہے  ۔

4.     عوامی تعلیمی اداروں   کی معلومات  سیکھائی جائیں ۔ مثلاً سکول ، کالج ، یونیورسٹی میں کیافرق ہے ۔  یونیورسٹی کیسے کام کرتی ہے یونیورسٹی سطح پر بنیادی شعبہ جات کون کون سے ہیں ۔ بی ایس ، ایم ایس ، پی ایچ ڈی کا کیا مطلب ہے ۔ ڈگری اور ڈپلومہ میں کیا فرق ہے ۔  مقابلہ کے امتحان کیا ہوتے ہیں اور ان تک کیسے رسائی حاصل کی جاسکتی ہے ۔

5.     عوامی تعلیمی اداروں میں کون سا نظام تعلیم رائج ہے ، سمسٹر کیا ہوتا ہے ۔ اس ضمن میں خوبیوں اور خامیوں دونوں سے روشنائی حاصل کی جائے ۔

6.     مختلف علوم کے نام اور ان کی چند بنیادی اصطلاحات سے واقفیت دی جائے مثلاً میڈیکل کی کچھ بنیادی اصطلاحات جیسے بیالوجی ، فزیالوجی  فارمیسی وغیرہ  کا کیا مطلب ہے ۔ انتھروپولوجی (علم بشریات) اسٹرانومی (فلکیات) وغیرہ سے واقفیت لی جائے ۔۔

یہ سب ایسی بنیادی معلومات ہیں جنہیں بہت آسانی سے سیکھا اور جانا جاسکتا ہے ان کے جاننے سے طلبہ اپنے معاشرے سے اجنبی نہیں رہیں گے انہیں فراغت کے بعد ایک نئی دنیا دیکھنے کو نہیں ملے گی وہ کسی  دنیوی تعلیم یافتہ شخص سے گفتگو کرتے ہوئے ہچکچائیں گے نہیں ۔بلکہ خود اعتمادی کے ساتھ دینی فرائض کو سرانجام دے سکیں گے ۔

ان باتوں کو کورس کی صورت میں بھی سیکھا جاسکتا ہے ، مثلاً قانون سے آگاہی کے کورسز  شریعہ اکیڈمی  اسلام آباد اور الشریعہ اگوجرانوالہ کی طرف سے ہوتے رہتے ہیں ۔ اسی طرح مختلف کتب اورمیڈیا کی مدد سے بھی ان  کو سیکھا جاسکتا ہے ۔

دعوتی منہج کی پہچان

ان سب کے ساتھ  طلبہ کو دعوتی مناہج سے روشناس ہونا ضروری ہے ۔ دینی کام کرنے کےلیے مناظرانہ رویوں کی ضرورت بہت کم پیش آتی ہے زیادہ تر دعوتی منہج ہی کارآمد ثابت ہوتا ہے ۔ عوام کو عوامی اندازسے سمجھانا پڑتا ہے ۔ اسی طرح  علمی انداز دعوت کیا ہونا چاہیے ۔ ہر طرح کے لوگوں میں دینی کام کرنے کے لیے ایک عالم دین کو کیسے رویے اختیار کرنے چاہیے ان سب کا جاننا ضروری ہے ۔ 

ادب الاختلاف کوجاننا

جس طرح  حنفی مدرسہ میں امام شافعی رحمہ اللہ تعالی کی کسی بھی  بات کونہیں مانا جاتا بایں ہمہ  ان کے احترام میں  کمی نہیں آتی  اسی طرح  اگر کسی کو آپ کے نظریہ سے اختلاف ہو تواگر مسئلہ ضروریات دین میں سے نہیں یا  فقہی  ہو جس میں ائمہ کا اختلاف ہے یا مباحات کی قبیل سے ہو تو دوسرے  کے ساتھ لڑائی جھگڑا کرنا ، بداخلاقی سے پیش آنا ، فتوی بازی پر اتر آنا  غلط طریقہ کار ہے ۔ ایسے معاملات میں  اپنا نقطہ نظر بھی رکھیں دوسرے سے اختلاف بھی کریں ، اپنی دلائل بھی بیان کریں لیکن اخلاق کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نا پائے ۔اسی طرح عوام سے لڑائی جھگڑے سے حتی الامکان پرہیز کرنا چاہیے  ۔

دین کی بنیاد عقائد میں بھی نبوی طریق دعوت کو ہر حال میں لازم پکڑناایک طالب علم کا شعارہونا چاہیے ۔ نبی اکرم ﷺ  سے بہتر دین کی دعوت نا کوئی دے سکا ہے نا ہی کوئی دے سکے گا آپ نے دین کے بنیادی عقائد کی بھی دعوت دی اور  شریعت کی بھی لیکن نا اس میں بد اخلاقی تھی نا بد کلامی نا دشنام طرازی نا ہی الزام تراشی  ۔ طلبہ کو نبوی انداز دعوت  کو ہی سیکھنا اور اس پر عمل کرنا ہے ۔

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں