جمعرات، 17 اگست، 2023

منطقی تصورات پڑھنے کے فوائد


اسلامی تراث میں تصورات کی اصطلاحات جابجا استعمال ہوئی ہیں ۔انہیں اگر اچھے طریقے سے پڑھ لیا جائے تو نا صرف فلسفہ کو بلکہ اسلامی تراث کو سمجھنا بھی آسان ہوجاتا ہے ۔مثلاً تعریف کی ہی بحث کو اگر دیکھ لیں تو ہر علم  کی اصطلاحات میں تعریف کا ذکر آتا ہے ۔ اس بات کو پہچاننا کہ کون سی تعریف درست ہے اور کون سی درست نہیں ہے تعریف کے اصول  جاننے پر موقوف ہے ۔ اور تعریف کے اصول کا تعلق تصورات سے ہے ۔ تصورات میں معرف کی بحث سے ہم تعریف کے مسائل کو اچھے طریقے سے پہچان سکتے ہیں ۔

اسی طرح  ہر علم  جب تعریف بیان کی جاتی ہے تو تعریف کی وضاحت کرتے ہوئے اس کی جنس اور فصول کی وضاحت کی  جاتی ہے ۔ جنس اور نوع کو اچھے طریقے سے سمجھنے سے تعریف کی ان مباحث کو سمجھا جاسکتا ہے ۔ جنس اور فصول کی مباحث  کا تعلق بھی تصورات سے ہے ۔

تعریف میں ایک بحث اس کے جامع اور مانع ہونے کی بھی آتی ہے اس کا تعلق بھی تصورات سے ہی ہے ۔

اس طرح اسلامی تراث کو سمجھنے کے لیے  اگر صرف تعریف کے گرد گھومتی مباحث کو ہی دیکھ لیں تو منطقی تصورات  کا علم حاصل کیے بغیر ہم اس قابل نہیں ہوپاتے ہیں  کہ ان بنیادی مباحث کو سمجھ سکیں ۔

 نسبت کا بیان بھی اسلامی تراث میں عام ہے ۔ تفسیر ہو ،حدیث کی کتب ہیں اصول حدیث ہوں ہر جگہ نسبت کا بیان ملتا ہے اور نسبتوں کو سمجھنے کے لیے تصورات کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔

بدیھی اور نظری کا لفظ بھی بہت جگہ مل جاتا  ہے اور ان دونوں کا تعلق بھی تصورات سے ہی ہے ۔

فقہ میں قواعد کلیہ   اور ضوابط جزئیہ پڑھائے جاتے ہیں اگر کلی اور جزئی  کا مفہوم ہی معلوم نا ہو تو قواعد کلیہ وغیرہ  کا مفہوم کیسے سمجھ آسکتا ہے ۔

غرض منطق کے صرف تصورات  سیکھنے سے بھی اسلامی کتب کے فہم میں کافی مدد مل جاتی ہے ۔ اس لیے منطق کے تصورات کو خوب سمجھ کر پڑھنا چاہیے ۔

 


تعارف کتاب تزکیہ و احسان یا تصوف و سلوک

 


اس کتاب کے مصنف سید ابوالحسن علی ندوی مرحوم ہیں ۔ اصل کتاب عربی میں ہے ۔ مولانا محمد الحسنی ندوی مرحوم نے اس کو اردو قالب میں ڈھالا ہے ۔عرب میں سلفیت کے رجحان کی وجہ سے تصوف کے بارے میں جو غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں مولانا نے ان کی اصلاح کی کوشش کی ہے ۔ مولانا علی میاں مرحوم نے کتاب میں بنیادی طور پر درج ذیل باتیں کہی ہیں ۔

1۔ تصوف کے انکار کی وجہ یا اس سے دوری کی وجہ اصطلاحات کا فرق ہے ۔ تصوف حقیقت میں وہی تزکیہ اور احسان ہے جس کا ذکراور حکم قرآن کریم میں موجود ہے ۔ یہ اصطلاحات کا مسئلہ ہی دوری کا سبب بنتا ہے ۔مولانا اس پر زور دیتے ہیں کہ اصطلاحات میں گم نہ ہونا چاہیے بلکہ حقیقت پر نظر رکھنی چاہیے ۔

2۔ دین کی عملی جد وجہد میں سب سے زیادہ کردار صوفیاء کا رہا ہے ۔ چنانچہ دنیائے اسلام میں جتنی تاریخی جہادی تحریکیں دیکھی جاسکتی ہیں چاہے وہ سید احمد شہید کی تحریک ہو یا امیر عبدالقادر الجزائری،طاغستان میں روسیوں کے مقابلے میں نقشبندی ہوں یا امام شامل،یا شیخ احمد السنوسی سبھی صوفیاء کرام تھے اور ان کی برپا کردہ تحریکیں ۔اس سلسلہ میں مولانا علی میاں نے بڑی تفصیل کے ساتھ ہند اور دیگر اسلامی دنیا کے صوفیاء کرام کا تذکرہ اور ان کی تاریخی ملی،اور دینی خدمات کو تفصیل سے پیش کیا ہے ۔

3۔ امام ابن تیمیہ کو لوگ عموماً صوفی شمار نہیں کرتے جب کہ ان کا تصوف سے گہرا تعلق تھا ۔ اس کا ذکر عرب حضرات کے لیے خصوصاً کیا گیا ہے ۔ کیونکہ اصلا ً کتاب بھی عربی ہے ۔یہاں یاد رہے کہ مولانا علی میاں مرحوم صحیح تصوف کی بات کررہے ہیں ۔

4۔ مولانا نے تصوف کو ایک الہامی نظام قرار دیا ہے ۔

کتاب کے آخر میں کچھ صوفیاء کرام کے حالات قریب از مرگ وفات کا ذکر ہے تاکہ ان کی حقانیت اس پہلو سے بھی واضح ہوسکے ۔

کتاب صرف 174 صفحات پر مبنی ہے لیکن ان صفحات میں مولانا علی میاں مرحوم نے اپنے پر ادب اور دلنشین قلم کے ساتھ تصوف کی حقیقی شکل وصورت کو واضح کرنے اور اس پر ہونے والے بے جا اعتراضات کو خوبصورت انداز میں دور کرنے کی کوشش کی ہے ۔

یہ کتاب مجلس نشریات اسلام کی طرف سے چھپی ہے ۔ کتاب پر قیمت درج نہیں ہے 

 


تعارف کتاب "اظہار حقیقت پر پر بصیرت افروز تبصرہ "


مولانا سید ابوالاعلی مودودی مرحوم کی کتاب پر مولانا اسحاق سندیلوی مرحوم نے اظہار حقیقت کے نام سے ایک تنقید لکھی تھی۔

مولانا اسحاق سندیلوی کی کتاب اظہار حقیقت کے رد میں مولانا لعل شاہ صاحب نے ایک کتاب لکھی تھی "اظہار حقیقت پر بصیرت افروز تبصرہ "۔

آج اس کا کافی مطالعہ کیا ۔ سید لعل شاہ صاحب نے مولانا اسحاق سندیلوی کے دعاوی پر بھی گرفت کی ہے، ان کے ناقص حوالہ جات پر بھی گرفت کی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان کے استدلال کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا رد بھی کیا ۔

اس کتاب میں مولانا سید لعل شاہ صاحب نے نا صرف اظہار حقیقت پر گرفت کی ہے بلکہ مولانا سندیلوی کے دوسری مضامین پر بھی تنقید تحریر کی ہے ۔

کتاب کے مقدمہ میں سید لعل شاہ صاحب نےایک دلچسپ اصول مقرر کیا ہے جو کتاب پڑھنے کی طرف متوجہ کرتا ہے اور وہ یہ کہ واقعہ کربلا کے متعلق طبری کے جنتے راویوں پر جرح کی جاتی ہے کہ وہ رافضی تھے اور ان کی روایات قابل اعتبار نہیں ہیں ۔ شاہ صاحب بھی ان کو استدلال میں پیش نہیں کریں گے ۔ اور تنقید میں اس کا پورا خیال رکھا جائے گا لیکن ساتھ ساتھ اگر مولانا سندیلوی نے انہیں اصحاب سے اپنی مطلب میں استدلال کیا تو وہ بھی رد ہوگا ۔

مولانا لعل شاہ صاحب کے نزدیک مولانا سندیلوی بہت سی جگہوں پر جواب میں دو ایسی باتیں کہتے ہیں جو حقیقتا ً جواب نہیں بنتی ۔

ایک تو یہ کہ اپنے مخالف حوالہ جات کو یہود ونصاری کی دسیسہ کاری پر محمول کردیتے ہیں ۔

دوسرا کسی کے قول کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ یہ محض ان کی رائے اور رائے قابل اعتبار نہیں ہوا کرتی ۔

نیز بہت سے مقامات پر مولانا امکان سے کام چلا لیتے ہیں ۔ اس پر تقریباً 8 حوالہ پیش کیے ہیں ۔

بہرحال مولانا اسحاق سندیلوی کے جن دعوی پر لعل شاہ صاحب نے گرفت کی ہے ان میں سے چند یہ ہیں :

1۔ حضرت عمار کے قاتل سبائی تھے ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا گروہ نہیں تھا ۔

شاہ صاحب کہتے ہیں کہ حضرت عمرو بن عاص ، حضرت ابوغاویہ جیسے صحابہ جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہ سے تھے اس قتل کو اپنے گروہ کی طرف ہی منسوب کرتے ہیں ۔ اور اس پر حوالہ جات دیے ہیں ۔

2۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھاکہ عمار کو انہوں نے قتل کیا جو انہیں لیکر آئے ۔ معلوم ہوا کہ حضرت معاویہ نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے قتل کا انکار کیا تھا ۔

شاہ صاحب کہتے ہیں کہ حضرت معاویہ کے کلام کے دو معنی بن سکتے ہیں کہ ایک اقرار اور دوسرا انکار لیکن اقرار پر دوسرے صحابہ کے حوالہ موجود ہیں تو اس معنی کو کیوں ترجیح نا دی جائے (خلاصہ کلام)

3۔ جنگ صفین میں صرف دو بدری صحابہ موجود تھے ۔

شاہ صاحب کہتے ہیں کہ حضرت علی ، طلحہ ، زبیر ، عمار، سہیل ، ابوامامہ باہلی جیسے اور بھی کئی بدری صحابہ شریک تھے ۔

4۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ جنگ سے جدا نہیں ہوئے تھے بلکہ بدستور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے ۔

شاہ صاحب باحوالہ اس کا رد کرتے ہیں ۔

5۔ حضرت عمرو ابن الحمق کا صحابی ہونا مشکوک ہے ۔ (جن کی شہادت کے بارے میں ایک روایت ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیں شہید کروایا )

شاہ صاحب نے کئی حوالوں سے ان کی صحابیت کا اثبات کیا ہے ۔

6 حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت متفقہ نہیں تھی نیز ان کے خلیفہ بننے کا عمل قابل غور ہے ۔ جس پر بہت سے اعتراضات ہیں ۔

شاہ صاحب کے بقول اسی سے معلوم ہوجاتا ہے کہ مصنف اظہار حقیقت ناصبی ہیں ۔

7۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا حضرت علی کے مقابل نکلنے پر نہیں رویا کرتی تھی ۔

شاہ صاحب کے نزدیک یہ بات حوالہ جات کے خلاف ہے ۔

8۔ مروان بن حکم صحابی رسول تھے ۔

انداز تنقید

سید لعل شاہ صاحب کا انداز تنقید نہایت شائستہ اور علمی ہے ۔

اسی کتاب میں طاہر مکی صاحب پر اور قاضی مظہر حسین صاحب کے نظریات پر بھی گرفت کی ہے ۔

کتاب 264 صفحات پر مبنی ہے ۔ آج کل اس کی اشاعت کہیں نہیں دیکھی گئی ۔ میرے پاس پرانا نسخہ ہے جس پر تاریخ اشاعت 1985ء لکھی ہوئی ہے ۔ ملنے کا پتا مدنی مسجد لائق علی چوک واہ کینٹ لکھا ہوا ہے ۔

شاید یہ کتاب اور سید لعل شاہ صاحب کی دوسری کتب، شاہ ولی اللہ صاحب مرحوم کے بیٹے شاہ صفی اللہ صاحب سے مل جائے ۔ جو اس وقت لائق علی چوک کی مدنی مسجد میں امام ہیں ۔رحمھم اللہ جمیعاً