·
فلسفہ
کو سب دنیاوی علوم کی ماں کا جاتا ہے کیونکہ سب علوم اسی سے ہی نکل کر آگے بڑھے ہیں ۔
·
فلسفہ
کا مطلب ہے حکمت سے محبت اور کون شخص ہو گا جو حکمت کو پسند نہ کرے حکمت دین اور
دنیا دونوں میں مطلوب رہی ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا جن کو حکیم مانتی ہے ان سب کے پاس
کوئی نہ کوئی فلسفہ تھا۔
·
فلسفہ
ہماری زندگی میں انقلاب برپا کرتا ہے فلسفہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے جو بات فلسفہ
کی بنیاد پر کی جائے اس بات کا وزن ہوتا ہے وہ دلوں کومتاثر کرتی ہے۔
·
فلسفہ
سے غور وفکر پیدا ہوتا ہے اور انسان کا مابہ الامتیاز یہی غور فکر ہے ۔انسان غور
کرتا ہے اپنی فکر سے نئی بات دریافت کرتا ہے ۔مختلف اشیاء کی حقیقوں کو تلاش کرتا
ہے۔خیر اور شر کو پہچاننے کی کوشش کرتا ہے ۔
·
فلسفہ
انسان کو خد اکے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتا ہے ۔وہ انسان کو خدا کے انکار تک ہر
گز نہیں پہنچاتا بلکہ وحی کے نہ ہونے کی صورت میں انسان کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے
جس سے کوئی بھی سلیم الفطرت انسان فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔
·
فلسفہ
نے قوموں کی قیادت کی ہے اور قومیت کی تشکیل میں واضح کردار ادا کیا ہے ۔اقوام ایک
دوسرے سے فلسفہ کے ذریعے ہی جدا ہوتی ہے ۔کسی بھی تہذیب کو اٹھا کر دیکھ لیجئے آپ
کو اس کے پیچھے خا ص فلسفہ حیات کارفرما نظر آئے گا۔یہ کہنا کہ فلسفہ کا زندگی
میں عمل دخل نہیں رہا کسی مجنون کی بات تو ہو سکتی ہے لیکن کوئی واقف کار ایسا
نہیں کہہ سکتا۔مسلمانوں کا رہن سہن اور تہذیب وتمدن دوسری اقوام سے جدا ہے کیونکہ
مسلمانوں کے پاس اپنا ایک فلسفہ حیات ہے ۔مغربی تہذیب و تمدن کو جب آپ تحلیل کر
کے دیکھیں گے تو اس کے پس پردہ فرائڈ،اور ڈارون جیسے لوگوں کا فلسفہ ہی ملے گا۔آپ
ان کا فلسفہ بدل ڈالیے ان کی زندگی بھی بدل جائے گی۔
·
کوئی
بھی علم فلسفہ سے بے نیاز نہیں ہر علم کی انتہا ء فلسفہ پر ہوتی ہے۔کسی بھی علم کی
اعلی درجہ کی باتیں فلسفیانہ ہوتی ہیں ۔سائنس جیسا علم اپنی بات سمجھانے میں فلسفہ
کا محتاج ہے ۔ فلسفہ کے بغیر سائنس محض چند منتشر باتوں کے مجموعہ کے کا نام ہی رہ
جاتا ہے ۔ڈارون کا نظریہ ارتقاء ہو ،نیوٹن کا نظریہ کشش ثقل اور آئن سٹائن کا
نظریہ اضافت سوائے فلسفہ کے اور کیا حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ ایک ایسا علم ہے جس سے کوئی
علم مستغنی نہیں ۔اس کا تعلق مظاہر سے حقیقت تک ہر علم کے ساتھ ہے اور اسی مضبوط
ربط واتصال نے لوگوں کواس شبہ میں ڈالا کہ فلسفہ کوئی علیحدہ علم ہے بھی کہ نہیں یا اس کی کوئی تعریف ممکن بھی ہے یا
نہیں۔
·
فلسفہ
ہی کی وجہ سے آج ہم اس قابل ہیں کہ قوموں کی عروج وزوال کی کہانی کا منظم طور پر
تجزیہ وتحلیل کر سکیں اور یہ دیکھ سکیں کہ عروج وزوال کے اسباب کیا ہیں۔بابل اور
نینوا ،یونان اورروم ہند ومغرب سب کی تہذیبی بنیاد فلسفہ پر ہی قائم ہے ۔
· فلسفہ
کا تعلق کلیات سے جزئیات تک سب کے ساتھ ہے ۔ایک عام انسان کی زندگی کو دیکھیں وہ
اپنے لیے کیسے ایک فلسفہ حیات متعین کر کے اس پر ساری زندگی عمل پیر ا ہوتا ہے ۔وہ
آپ کے سامنے اپنے مخصوص طریق زندگی کی وضاحت میں ایک نظریہ پیش کرے گا اس پر کچھ
دلائل دے گا کچھ باتوں کو رد کرے گا اور کچھ کو شک کی نگاہ سے دیکھے گا ۔بس اسی کا
نام فلسفہ ہے ۔اگر کسی علمی یا عملی انقلابی تحریک کے پیچھے فلسفہ نہ ہو تووہ کبھی
پروان نہیں چڑھ سکتی۔
·
فلسفہ
میں جامعیت ہے فلسفہ ایسے بنیادی سوالات اٹھاتا ہے جو زندگی کے لیے ضروری ہیں اور
کوئی دوسرا علم ان سوالات کو اٹھا نے کی یا ان سے بحث کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ہم
یہاں دین اور وحی کی بات نہیں کر رہے کہ وہ ہمارے لیے نہایت محترم ہیں مگر یہ ایک
حقیقت ہے کہ دین اور مذہب ہمیں بنیادی سوالات کے جوابات تو دیتے ہیں مگر بنیادی
سوالات اٹھانا فلسفہ کا ہی کام ہے ۔بیشک جواب کی اہمیت زیادہ ہے مگر سوال بغیر
جواب کی طرف توجہ بھی کم پائی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ سوچ کسی کے کردار کے متعلق ہو
یا آفاق کے متعلق سوچ کر ایمان لانے والوں کا درجہ تقلیدا ایمان لانے والوں سے زیادہ ہے۔افلا یتدبرون
افلا یتفکرون اور الذین یستمعون القول فیتبعون احسنہ جیسی آیات اس پر شاہد عدل
ہیں۔ ۔
·
فلسفہ
سے کلیات حاصل ہوتے ہیں ۔جن کی مدد سے ہم بہت ساری ایسی چیزوں کے بارے میں بھی جان جاتے ہیں جو ابھی معرض وجود
میں نہیں آئی۔اور جن سے ہم مستقل فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔
غرض
طرز زندگی کا مسئلہ ہو یا علوم کا، بات حقیقت کی ہو یا مظاہر کی آپ کسی بھی جگہ
فلسفہ سے نہیں بھاگ سکتے ۔آپ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ یونانی فلسفہ ٹھیک نہیں یا
مغربی فلسفہ میں خامیاں ہیں مگر نفس فلسفہ کی
افادیت کا انکار نہیں کر سکتے۔اگر تاریخ انسانی پر
نظرڈالیں تو تاریخ کے ہر اہم موڑ پر فلسفہ نے اپنا کردار بخوبی نبھایا ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں