اللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺ
کو آخری نبی بنا کر بھیجا ہے اور ان کو ایک
ایسی شریعت سے نوازا جو کامل اور مکمل شریعت ہے۔شریعت اسلامیہ چونکہ آخری شریعت
تھی اس وجہ سے اس میں لوگوں کے مزاج اور عادات ،ان کی ضروریات اور حاجات کا خاص
خیال رکھا گیا تاکہ ہر زمانہ کے لوگوں کے لیے اس پر عمل کرنا آسان ہو۔شریعت
اسلامیہ کو اللہ تعالی نے بہت سے خصائص سے نوازا ہے جن میں عدم مشقت ،عدم حرج،یسر
،مرونت اورکامل اور مکمل ہونا ہے۔
شریعت
اسلامیہ کے خصائص میں سے ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ اس کا کوئی کام عبث اور بے فائدہ
نہیں بلکہ اس کے کام مقاصد سےوابستہ ہیں چنانچہ
عبادات ہوں یا معاملات ہر کام میں کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہےاللہ تعالی نے خود
قرآن کریم میں اپنے کئی احکامات کے مقاصد بیان کیے ہیں:
جس طرح یہ شریعت جامع ہے اسی طرح اس
کے مقاصد بھی اتنے جامع ہیں کہ کوئی چھوٹی سے چھوٹی جزئی ان سے خارج نظر نہیں آتی
۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور آپ کے فرامین مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے
کہ آپ مقاصد کی بہت رعایت فرماتے تھے آپ کی سیرت پر چلتےہوئے صحابہ کرام نے بھی
اپنے فیصلوں میں مقاصد پر نظر رکھی اور بعد میں ائمہ عظام نے انہی اسلاف کو دیکھتے
ہوئے مقاصد کو اپنے اصولوںمیں سے ایک اصل مان لیا۔چاہے اس کا نام استحسان ہو یا
مصالح مرسلہ یا چاہے ان ناموں کا انکار ہی کر دیا جائے مگر اصل حقیقت سے کبھی روگردانی نہیں کی گئی یہی وجہ ہے کہ امام شافعی جو
استحسان اور مصالح مرسلہ کو حجت نہیں مانتے ان کے ہاں بھی اجتہادات میں ہمیں مقاصد کی رعایت صاف دکھائی
دیتی ہے ۔بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ مقاصد کی رعایت مجتہد کے لیے
شرط ہے ۔
مقاصد شریعت کے متعلق اہل علم کی آراء کا تاریخی مطالعہ
یہ ایک حقیقت ہے کہ مقاصد اگرچہ
شروع زمانہ اسلام سے ہی مجتہدین کے اجتہادات کا ماخذ رہے ہیں مگر ابتدا میں ان پر
علیحدہ سے کوئی کام نہیں کیاگیا شاید اس لیے کہ علوم اپنی ابتداء میں مختصر اور
بنیادی ہوتے ہیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی ایک ایک چیز نکھرتی چلی جاتی ہے
۔پھر جب علوم کی تشریحات اور توضیحات کا
زمانہ آیا تو مقاصد پر بھی کام شروع ہوا
مگر ضمنی طور پر ۔کبھی اصول فقہ کے تحت اور کبھی فقہ کے تحت مقاصد کا ذکر
ہوتا رہا ۔
(١)سب سے
پہلے امام الحرمین نے مقاصد خمسہ کو پیش کیا نیز انہوں نے مقاصد کی تقسیم ضروری
حاجی اور تحسینی میں کی ۔[1]
(٢)پھر ابو حامد
الغزالی نے اس تقسیم کو خوب نکھارا اور زیادہ بہتر انداز سے المستصفی میں ان کو
پیش کیا ۔[2]
(٣)سیف الدین آمدی
نے ان میں اسقدر اضافہ کیا کہ ان میں تعارض کے وقت ترتیب قائم کر دی نیز مقاصدکے
پانچ میں منحصر ہونے کا دعوی کیا ۔[3]
(٤) سبکی نے ایک اور مقصد حفاظت عرض کا اضافہ کیا ۔[4]
)٥)ابن
تیمیہ نے کہا کہ مقاصد کا پانچ میں انحصار درست نہیں ہے ۔ابن تیمیہ سے پہلے جتنے
حضرات تھے انہوں نے مقاصد کی بنیاددفع مضرت پررکھی تھی ۔ابن تیمیہ نے کہا کہ مقاصد کی بنیاد دفع مضرت
نہیں بلکہ جلب منفعت پر ہونی چاہیے۔ [5]
(٦)مقاصد پر مکمل
طور پر تفصیلی کام سب سے پہلے ہمیں امام شاطبی کے ہاں نظر آتا ہے جنہوں نے اس پر
کام کیا اس کے اصول وفروع کونکھارا اس کے کلیات بنائے اور ایک مستقل علم کے طور پر
اس پر بحث کی ۔لیکن امام شاطبی نے بھی مقاصد کی بنیاد دفع مضرت ہی کوبنایا۔یہ سب
کام آٹھو یں صدی تک ہوا اس کے بعد طویل زمانہ تک اس پر کچھ اضافہ نہیں ہوا ۔[6]
(٧)ہندوستان
میں شاہ ولی اللہ نے حجة اللہ البالغہ میں مقاصد کا ذکر کیا ۔[7]
(٨)شیخ
ابن عاشور نے دوبارہ مقاصد کو موضوع بحث بنایا اور نئے سرے سے اس پر نظر کی اور
مقاصد شریعت کو ایک منظم علم کے طور پر مدون کرنے کی کوشش کی، نیز مقاصد عامہ کی
فہرست میں سماحت و یسر ،حریت اور مساوات کا اضافہ کیا ۔[8]
(٩)اسی زمانہ کی ایک
اور شخصیت شیخ علال فاسی نے ایک کتاب لکھی اور انہوں نے عدل بین الناس ،اصلاح ارض ،اور
نظام معیشت کو بھی مقاصد میں شامل کیا [9]۔شیخ
احمد الخملیشی نے اجتماعی اقتصادی اور سیاسی حقوق کو بھی مقاصد میں شمار کیا [10]
(١٠)اقبال
نے حریت ،مساوات اور حفظ نوع انسانی کے
مقاصد میں ہونے کا ذکر کیا ۔[11]
(١١)دور
آخر میں نجات اللہ صدیقی صاحب نے مقاصد پر ایک کتاب لکھی اور اس میں پانچ مقاصد کے
علاوہ مزید چھ مقاصد کا اضافہ کیا :
١۔انسانی عز وشرف۔
٢۔بنیادی آزادی۔
٣۔عدل وانصاف ،ازالہ غربت اور کفالت
عامہ۔
٤۔سماجی مساوات اور دولت کی تقسیم
میں بے اعتدالی کو روکنا۔
٥۔امن وامان اور نظم ونسق۔
٦۔بین
الاقوامی سطح پر باہمی تعامل اور تعاون۔[12]
اور اس
طرح مقاصد عامہ کی فہرست میں مختلف اقوال سامنے آنے لگے ۔
[1] الجوینی،امام
الحرمین، عبدالملک بن عبداللہ بن یوسف الجوینی،البرھان فی اصول الفقہ(دارالکتب
العلمیہ ،طبع اولی1997،لبنان ،بیروت)ج2،ص:79۔
[2] الغزالی،ابوحامد محمد بن محمد الطوسی،المستصفی(دارالکتب العلمیۃ ،طبع اولی1993،بیروت
لبنان)ص:174۔
[3] الآمدي، أبو
الحسن سيد الدين علي بن أبي علي بن محمد بن سالم الثعلبي ،الاحکام فی اصول
الاحکام(المکتب الاسلامی/بیروت ،لبنان)ج3،ص:274۔
[4] السبکی،تاج الدین
عبدالوھاب بن علی ،جمع الجوامع فی اصول الفقہ(دارالکتب العلمیۃ،طبع ثانیہ 2003،بیروت،
لبنان) ص:92۔
[5] ابن تیمیۃ،تقي الدين أبو العباس أحمد بن عبد الحليم بن عبد السلام ابن
تيمیہ الحراني الحنبلي الدمشقي،الفتاوی الکبری (دارالکتب العلمیۃ،طبع
اولی1987،بیروت ،لبنان)ج4،ص:469۔
[6] دیکھیےشاطبی،ابواسحق
ابراھیم بن موسی اللخمی الغرناطی،الموافقات فی الشریعۃ(دارالکتاب العربی بیروت
لبنان)الجزء الثانی ،کتاب المقاصد۔
[7] دہلوی،شاہ ولی
اللہ دہلوی،حجۃ اللہ البالغۃ اردو(فرید بک سٹال 40،اردو بازار لاہور)۔
[8] ابن عاشور،حمدطاہرابن
عاشور،مقاصد الشریعۃ الاسلامیۃ(دارالنفائس،طبع ثالثہ،2001،اردن) ص268،329،390۔
[9] فاسی،علال فاسی ،قاصد
الشریعة الاسلامیۃ ومکارمھا (دارالغرب السلامی ،طبع خامسۃ،1993)۔
[10] الخمیشی،احمد،وجھۃ نظر(درنشر
المعرفۃ،1998،الرباط)ج2،ص:126۔
[11] اقبال،علامہ ڈاکٹر
محمد اقبال ،تشکیل جدید الہیات اسلامیہ (بزم اقبال 2کلب روڈ،لاہور)ص:229۔
[12] نجات اللہ ،محمد
نجات اللہ صدیقی،مقاصد شریعت (ادارہ تحقیقات اسلامی/سن اشاعت 2014)ص: 21۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں