اسلامی
تراث میں تصورات کی اصطلاحات جابجا استعمال ہوئی ہیں ۔انہیں اگر اچھے طریقے سے پڑھ
لیا جائے تو نا صرف فلسفہ کو بلکہ اسلامی تراث کو سمجھنا بھی آسان ہوجاتا ہے
۔مثلاً تعریف کی ہی بحث کو اگر دیکھ لیں تو ہر علم کی اصطلاحات میں تعریف کا ذکر آتا ہے ۔ اس بات
کو پہچاننا کہ کون سی تعریف درست ہے اور کون سی درست نہیں ہے تعریف کے اصول جاننے پر موقوف ہے ۔ اور تعریف کے اصول کا تعلق
تصورات سے ہے ۔ تصورات میں معرف کی بحث سے ہم تعریف کے مسائل کو اچھے طریقے سے پہچان
سکتے ہیں ۔
اسی
طرح ہر علم جب تعریف بیان کی جاتی ہے تو تعریف کی وضاحت
کرتے ہوئے اس کی جنس اور فصول کی وضاحت کی
جاتی ہے ۔ جنس اور نوع کو اچھے طریقے سے سمجھنے سے تعریف کی ان مباحث کو
سمجھا جاسکتا ہے ۔ جنس اور فصول کی مباحث
کا تعلق بھی تصورات سے ہے ۔
تعریف
میں ایک بحث اس کے جامع اور مانع ہونے کی بھی آتی ہے اس کا تعلق بھی تصورات سے ہی
ہے ۔
اس
طرح اسلامی تراث کو سمجھنے کے لیے اگر صرف
تعریف کے گرد گھومتی مباحث کو ہی دیکھ لیں تو منطقی تصورات کا علم حاصل کیے بغیر ہم اس قابل نہیں ہوپاتے
ہیں کہ ان بنیادی مباحث کو سمجھ سکیں ۔
نسبت کا بیان بھی اسلامی تراث میں عام ہے ۔
تفسیر ہو ،حدیث کی کتب ہیں اصول حدیث ہوں ہر جگہ نسبت کا بیان ملتا ہے اور نسبتوں
کو سمجھنے کے لیے تصورات کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔
بدیھی
اور نظری کا لفظ بھی بہت جگہ مل جاتا ہے
اور ان دونوں کا تعلق بھی تصورات سے ہی ہے ۔
فقہ
میں قواعد کلیہ اور ضوابط جزئیہ پڑھائے جاتے ہیں اگر کلی اور
جزئی کا مفہوم ہی معلوم نا ہو تو قواعد
کلیہ وغیرہ کا مفہوم کیسے سمجھ آسکتا ہے ۔
غرض
منطق کے صرف تصورات سیکھنے سے بھی اسلامی
کتب کے فہم میں کافی مدد مل جاتی ہے ۔ اس لیے منطق کے تصورات کو خوب سمجھ کر پڑھنا
چاہیے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں