ھدایہ اپنے علم کی مانی ہوئی کتاب ہے
۔ مدارس اسلامیہ میں یہ ان کتابوں میں سے ایک ہے جسے مکمل پڑھایا جاتا ہے ۔ ھدایہ
کو کیسے بہتر سے بہتر پڑھایا جائے اس کے مختلف طریقے ہوسکتے ہیں :
بنیادی درجہ
ھدایہ کو پڑھانے کا پہلا اور بنیادی
انداز یہ ہے کہ اس کی عبارت کو حل کر کے اس کے مطلب کو بیان کردیا جائے ۔ یہ کم سے
کم درجہ ہے ۔ اسی وجہ سے اسے بنیادی کا نام دیا ہے ۔ اکثر مدارس میں اسی طریقہ کی
پیروی کی جاتی ہے ۔
متوسط درجہ
دوسرا درجہ یہ ہے کہ عبارت کے حل کے
ساتھ ساتھ ھدایہ کا تجزیہ اور تحلیل بھی کی جائے تاکہ بات خوب اچھے طریقہ سے ذہن
نشین ہوجائے ۔ اس درجہ میں ایک باب کو بھی لیا جاسکتا ہے ایک مخصوص حصہ کو بھی اور
روزانہ کے سبق کو بھی ۔ مکمل تجزیہ اور تحلیل میں چند کام کرنے کے ہیں :
1۔
نفس مسئلہ یا مسائل کا کا خلاصہ :
یعنی اس قال میں یا اس باب میں کتنے
مسائل بیان ہوئے ہیں ۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ طلبہ کو نفس مسئلہ سمجھ بھی آئے گا
اور یاد بھی رہے گا ۔
2۔
اختلافات اور دلائل ۔
اختلافات کو گن لیا جائے کہ کتنے ائمہ کا اختلاف
ہے ۔ اور کتنے مسئلوں میں اختلاف بیان ہوا ہے ۔
3۔
صاحب ھدایہ نے اگر اس سبق میں یا باب میں کچھ قواعد بیان کیے ہیں تو ان قواعد کو
دوران سبق نشان زدہ کروایا جائے ، علیحدہ سے لکھوایا جائے ۔
4۔
مشکلات ھدایہ :
ھدایہ میں بنیادی مشکلات دو طرح کی
ہیں : ایک مشکل عبارت دوسرا فہم دلیل ۔ تو اگر کوئی عبارت مشکل ہے یا صاحب ھدایہ
کی بیان کردہ کوئی دلیل مشکل ہے تو اسے نشاد زدہ کروایا جائے اور علیحدہ سے
لکھوایا جائے ۔
اب یہ سب کام چاہے اساتذہ طلبہ سے
کروالیں چاہے طلبہ کو لکھوادیے جائیں اور بہتر یہ ہے کہ دونوں کام ہو جائیں ۔ پہلے
طلبہ سے کام کروایا جائے تاکہ ان کی توجہ کامل ہوجائے پھر خود بتا دیا جائے تاکہ
کمی دور ہوجائے ۔
تجزیہ اور تحلیل کا فائدہ یہ ہے کہ
مفہوم پر گرفت مضبوط ہوجائے گی ۔
عبارت کے خلاصہ جات کے لیے ایسی کتب
کو دیکھنا بھی فائدہ مند رہے گا جن میں مسائل کو گن کر یا ترتیب سے بیان کیا جاتا
ہے ۔ مثلاً النتف فی الفتاوی ۔ درجہ رابعہ میں شرح وقایہ کا متن وقایہ ھدایہ کے
مسائل کا خلاصہ ہے ۔ اس سے بھی عبارت کا خلاصہ بنانے میں مدد لی جاسکتی ہے ۔
اعلی درجہ
اس سے اعلی درجہ یہ ہے کہ ھدایہ کے
نفس متن کو حل کر کے اس پر تحقیقات اور فوائد کو پیش کیا جائے اب اس کے دو انداز
ہیں ایک جو زیادہ مشہور اور متعارف ہے اور دوسرا جو بہت اعلی ہے اگرچہ بہت مشہور
نہیں ہے ۔
پہلا انداز
ھدایہ کی شروحات کو دیکھتے ہوئے سبق
کو تیار کیا جائے ۔ ھدایہ کی شروحات بنیادی طور پر دو طرح کی ہیں ایک جن میں
نقلیات سے زیادہ بحث کی گئی ہے یعنی مسائل احناف پر احادیث پیش کی گئی ہیں ۔ اور
دوسری جن میں مسائل کو عقلی انداز سے سمجھایا گیا ہے ۔ اب اپنے ذوق اور اپنی پسند
کے مطابق کسی شرح کا انتخاب کر کے اس سے سبق کو تیار کیا جائے ۔
دوسرا انداز
ھدایہ کے مسائل کو اصول کی طرف لوٹایا جائے ۔ اس صورت
میں پہلے طلبہ کو قواعد کلیہ اورضوابط کے بارے میں تفصیلی علم دے دیا جائے ۔ اس کے
لیے تاسیس النظر فی الفقہ الاسلامی کتاب بہت کارآمد رہے گی ۔ جس کا اردو میں ترجمہ
"فقہ اسلامی کی نظریہ سازی " کے نام سے چھپ چکا ہے ۔ یا ابن نجیم اور
سیوطی کی الاشباہ والنظائر کے چند ابواب کا مطالعہ بہت فائدہ مند رہے گا۔ اس کے
بعد کسی باب کے مسائل میں سے ہر مسئلہ کے بارے میں بتایا جائے کہ یہ کس قاعدہ سے
متفرع ہے ۔
یہ طریقہ کار اتنا آسان نہیں ہے لیکن بہت فائدہ مند ہے
۔ ابھی تک ھدایہ کی کوئی شرح اس ترتیب سے نہیں لکھی گئی ۔ سرحد کے فقیہ عالم نے اس
طرز پر کافی محنت کی ہے ان کے تفصیلی نوٹس سرحد سے مل جاتے ہیں ۔ جو احباب جانتے
ہیں وہ کمنٹس میں ان کی وضاحت کرسکتے ہیں ۔ مفتی بولبابہ شاہ صاحب بھی انہیں سے
متاثر ہیں ۔
فائدہ
ھدایہ پڑھانے کے پہلے دو انداز ایسے ہیں کہ آپ کو کسی
شرح کودیکھنا نہیں پڑتا اور بہت کچھ ہاتھ آجاتا ہے ۔ لیکن اگر آپ کا مطالعہ کمزور
ہے تو کوئی ایک آدھ شرح دیکھنے میں کوئی حرج بھی نہیں ۔لیکن آخری انداز کے لیے
کافی مطالعہ اور محنت چاہیے ۔ ہمیں بعض بڑے مدارس کے مفتیان کرام کے بارے میں یہ
علم ہے کہ وہ اپنے ذہین طلبہ سے یہ کام لیکر پھر اس کی مدد سے پڑھاتے رہے ہیں ۔
بہرحال کام محنت طلب ہے ۔
ان طرق میں کوئی تضاد نہیں
ھدایہ کے ان طرق کو جمع بھی کیا جاسکتا ہے ان میں کوئی
تضاد نہیں ہے ۔ یہ درجہ بدرجہ آگے بڑھنے کا طریقہ ہے ۔
ھدایہ پڑھانے کا ایک نیا انداز
نمبر دو کا انداز میرا ذاتی مشورہ ہے میں نے ابھی تک
کسی کو اس طرح پڑھاتے نہیں دیکھا ۔ کیونکہ مدارس میں بڑے درجات میں لکھائی کا کام
نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے ۔ بس امتحانات میں یا کوئی ایک آدھ استاذ جو کوئی کام
سونپ دے تو علیحدہ بات ہے ۔
ہدایہ پڑھانے کا ایک انداز یہ ہے کہ مسائل کو دلائل کے
اعتبار سے تقسیم کیا جائے چنانچہ یہ دیکھا جائے کہ مسائل کا ماخذ کیا ہے ۔ پھر
قرآن ،حدیث ، اجماع اور قیاس کے مسائل کو جدا جدا کیا جائے ۔
ان چار یا پانچ عنوانات کے تحت اگر مسائل کی وضاحت کر
دی جائے تو طلبہ کو کچھ وقت گزرنے کے ساتھ فقہ پر خاص قسم کا ملکہ حاصل ہوجائے گا
جس سے ان کی نظر میں بھی وسعت آئے گی اور دیگر فوائد بھی ملیں گے ۔ ظاہر ہے یہ
مشکل کام ہے لیکن ناممکن نہیں ہے ۔
اگر آپ کے کسی استاذ محترم نے ھدایہ کو کسی بھی نئے
انداز سے پڑھایا ہو تو کمنٹس میں ضرور شیئر کیجئے تاکہ سب کا فائدہ ہو۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں