جمعرات، 17 اگست، 2023

تعارف کتاب "اظہار حقیقت پر پر بصیرت افروز تبصرہ "


مولانا سید ابوالاعلی مودودی مرحوم کی کتاب پر مولانا اسحاق سندیلوی مرحوم نے اظہار حقیقت کے نام سے ایک تنقید لکھی تھی۔

مولانا اسحاق سندیلوی کی کتاب اظہار حقیقت کے رد میں مولانا لعل شاہ صاحب نے ایک کتاب لکھی تھی "اظہار حقیقت پر بصیرت افروز تبصرہ "۔

آج اس کا کافی مطالعہ کیا ۔ سید لعل شاہ صاحب نے مولانا اسحاق سندیلوی کے دعاوی پر بھی گرفت کی ہے، ان کے ناقص حوالہ جات پر بھی گرفت کی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان کے استدلال کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا رد بھی کیا ۔

اس کتاب میں مولانا سید لعل شاہ صاحب نے نا صرف اظہار حقیقت پر گرفت کی ہے بلکہ مولانا سندیلوی کے دوسری مضامین پر بھی تنقید تحریر کی ہے ۔

کتاب کے مقدمہ میں سید لعل شاہ صاحب نےایک دلچسپ اصول مقرر کیا ہے جو کتاب پڑھنے کی طرف متوجہ کرتا ہے اور وہ یہ کہ واقعہ کربلا کے متعلق طبری کے جنتے راویوں پر جرح کی جاتی ہے کہ وہ رافضی تھے اور ان کی روایات قابل اعتبار نہیں ہیں ۔ شاہ صاحب بھی ان کو استدلال میں پیش نہیں کریں گے ۔ اور تنقید میں اس کا پورا خیال رکھا جائے گا لیکن ساتھ ساتھ اگر مولانا سندیلوی نے انہیں اصحاب سے اپنی مطلب میں استدلال کیا تو وہ بھی رد ہوگا ۔

مولانا لعل شاہ صاحب کے نزدیک مولانا سندیلوی بہت سی جگہوں پر جواب میں دو ایسی باتیں کہتے ہیں جو حقیقتا ً جواب نہیں بنتی ۔

ایک تو یہ کہ اپنے مخالف حوالہ جات کو یہود ونصاری کی دسیسہ کاری پر محمول کردیتے ہیں ۔

دوسرا کسی کے قول کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ یہ محض ان کی رائے اور رائے قابل اعتبار نہیں ہوا کرتی ۔

نیز بہت سے مقامات پر مولانا امکان سے کام چلا لیتے ہیں ۔ اس پر تقریباً 8 حوالہ پیش کیے ہیں ۔

بہرحال مولانا اسحاق سندیلوی کے جن دعوی پر لعل شاہ صاحب نے گرفت کی ہے ان میں سے چند یہ ہیں :

1۔ حضرت عمار کے قاتل سبائی تھے ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا گروہ نہیں تھا ۔

شاہ صاحب کہتے ہیں کہ حضرت عمرو بن عاص ، حضرت ابوغاویہ جیسے صحابہ جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہ سے تھے اس قتل کو اپنے گروہ کی طرف ہی منسوب کرتے ہیں ۔ اور اس پر حوالہ جات دیے ہیں ۔

2۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھاکہ عمار کو انہوں نے قتل کیا جو انہیں لیکر آئے ۔ معلوم ہوا کہ حضرت معاویہ نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے قتل کا انکار کیا تھا ۔

شاہ صاحب کہتے ہیں کہ حضرت معاویہ کے کلام کے دو معنی بن سکتے ہیں کہ ایک اقرار اور دوسرا انکار لیکن اقرار پر دوسرے صحابہ کے حوالہ موجود ہیں تو اس معنی کو کیوں ترجیح نا دی جائے (خلاصہ کلام)

3۔ جنگ صفین میں صرف دو بدری صحابہ موجود تھے ۔

شاہ صاحب کہتے ہیں کہ حضرت علی ، طلحہ ، زبیر ، عمار، سہیل ، ابوامامہ باہلی جیسے اور بھی کئی بدری صحابہ شریک تھے ۔

4۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ جنگ سے جدا نہیں ہوئے تھے بلکہ بدستور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے ۔

شاہ صاحب باحوالہ اس کا رد کرتے ہیں ۔

5۔ حضرت عمرو ابن الحمق کا صحابی ہونا مشکوک ہے ۔ (جن کی شہادت کے بارے میں ایک روایت ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیں شہید کروایا )

شاہ صاحب نے کئی حوالوں سے ان کی صحابیت کا اثبات کیا ہے ۔

6 حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت متفقہ نہیں تھی نیز ان کے خلیفہ بننے کا عمل قابل غور ہے ۔ جس پر بہت سے اعتراضات ہیں ۔

شاہ صاحب کے بقول اسی سے معلوم ہوجاتا ہے کہ مصنف اظہار حقیقت ناصبی ہیں ۔

7۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا حضرت علی کے مقابل نکلنے پر نہیں رویا کرتی تھی ۔

شاہ صاحب کے نزدیک یہ بات حوالہ جات کے خلاف ہے ۔

8۔ مروان بن حکم صحابی رسول تھے ۔

انداز تنقید

سید لعل شاہ صاحب کا انداز تنقید نہایت شائستہ اور علمی ہے ۔

اسی کتاب میں طاہر مکی صاحب پر اور قاضی مظہر حسین صاحب کے نظریات پر بھی گرفت کی ہے ۔

کتاب 264 صفحات پر مبنی ہے ۔ آج کل اس کی اشاعت کہیں نہیں دیکھی گئی ۔ میرے پاس پرانا نسخہ ہے جس پر تاریخ اشاعت 1985ء لکھی ہوئی ہے ۔ ملنے کا پتا مدنی مسجد لائق علی چوک واہ کینٹ لکھا ہوا ہے ۔

شاید یہ کتاب اور سید لعل شاہ صاحب کی دوسری کتب، شاہ ولی اللہ صاحب مرحوم کے بیٹے شاہ صفی اللہ صاحب سے مل جائے ۔ جو اس وقت لائق علی چوک کی مدنی مسجد میں امام ہیں ۔رحمھم اللہ جمیعاً

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں