ہفتہ، 19 اگست، 2023

مذہب مخالف الحاد کا تعارف ، مختصر تاریخ اور تبصرہ

 

مذہب کے انکار کا نام الحاد ہے یوں تو ہر زمانہ میں ملحدین رہے ہیں لیکن ان کی تعداد بہت کم رہی ہے ۔ جدید الحاد کی تاریخ سترہو یں صدی سے شروع ہوتی ہے جب یورپ میں کلیسا کی حکومت کمزور پڑنے لگی اور بے دین سائنسدانوں کازور ہونے لگا۔

کلیسا کے ظلم وستم کے وجہ سے یہ لوگ شدت سے مذہب کے مخالف ہوگئے اور سائنس کو مذہب کے مقا بل لاکھڑا کیا۔ اٹھارہوں اور انیسویں صدی کے وسط تک الحادکا کافی چرچا رہا اور اس کے ماننے والوں کی تعداد ماضی کی بنسبت اب کافی زیادہ ہے ۔الحاد کو نظریہ ارتقاء  سے کافی مدد ملی۔ اور پھر ہر سائنسی شعبہ میں نظریہ ارتقاء کو دیکھتے ہوئے ہی کام کیا گیا جس کی وجہ سے  سائنس الحاد پھیلانے کا سب سے مؤثر ہتھیار ثابت ہوئی ۔

 1950 کے بعد سے سائنسی شعبوں میں جو ترقی ہوئی ہے اس نے جیسے سائنس کی کایہ پلٹ کررکھ دی ہے ایسے ہی الحاد کے لیے رکاوٹ کا ذریعہ بھی بن رہی ہے ۔چنانچہ بگ بنگ تھیوری میں  انرجی کو ابتدائی سورس مانا گیا جس سے معلوم ہوا کہ مادہ ہمیشہ سے نہیں ہے ۔کوانٹم سائنس کے نظریات نے سائنس کی شکل ہی بدل کر رکھ دی ۔نظریہ ارتقاء بھی ابھی تک ایک نظریہ ہی رہا ،وہ حقیقت کا روپ نہیں دھار سکا۔

مذہب مخالف نظریہ ان کے دلائل اور جواب

ملحدین کے نزدیک مذہب کوئی حقیقی چیز نہیں ہے ۔ یہ صرف انسان کی اس خصوصیت کا نام ہے کہ وہ کائنات کی توجیہ کرنا چاہتا ہے ، توجیہ تلاش کرنا تو درست ہے لیکن کم تر معلومات کی وجہ سے ہمارے بڑے غلط جواب تک پہنچ گئے اور وہ جواب تھا خدا اور مذہب ۔

بیسویں صدی کی دوسری چوتھائی سے یہ scientific Empiricism  (امپیرزازم )یعنی منطقی ثبوتیت اور سائنسی تجربیت کا نظریہ عام ہوا ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز مشاہد ہ اور تجربہ میں آئی گی اسے ہی مانا جائے گا اور جو چیز مشاہدہ اور تجربہ میں نہیں آئے گی اسے نہیں مانا جائے گا۔

ان دو باتوں سے  معلوم ہوا کہ مذہب کی ضرورت نہیں کیونکہ مذہب سے جن باتوں کی توجیہ کی جاتی تھی وہ توجیہ غلط تھی کیونکہ  ان کی حقیقت ہمیں سائنس سے معلوم ہوچکی ہے ۔اسی طرح خدا  کی ضرورت  بھی نہیں رہی کہ وہ مشاہدہ میں نہیں آتا ،نیز خدا کا نام لیکر کائنات کی جن چیزوں کی توجیہ کی جاتی تھی ان کی حقیقت ہمیں سائنس سے معلوم ہوگئی ہے ۔

مذہب کے رد کے  سلسلہ میں سائنس کے تین شعبوں کا حوالہ دیا گیا ۔ طبیعیات، نفسیات، اور تاریخ 

کہا گیا کہ :

·       فزکس میں نیوٹن نے ہمیں بتا دیا کہ کوئی خدا نہیں جو سیاروں کی گردش پر حکومت کرتا ہو۔اس نظریہ میں خدا کی ضرورت زیادہ سے زیادہ  ابتداء کرنے والے کی رہتی ہے ۔لیکن اس کا بھی انکار کردیا گیا کہ خدا نظر نہیں آتا۔جیسے اگر یوں کہا جائے کہ وہ کون ہے جو سورج کو مشرق سے نکالتا اور مغرب میں غروب کرتا ہے تو جواب میں یہ کہیں گے کہ محوری حرکت اس کا سبب ہے ۔نہ کہ کوئی خدا(نعوذ باللہ)

·       نفسیات میں فرائڈ نے ہمیں بتایا کہ مذہب انسان کی اپنی آرزوؤں کی ایک خوبصورت تصویر ہے ۔ جو آرزوؤیں پوری نہ ہوسکی ۔یعنی زندگی میں تمام خواہشات کے پورا نہ ہوسکنے نے انسان کے دل میں یہ خیال پیدا کیا کہ جنت اور جہنم ہونے چاہییں ۔

·       تاریخ سے ہمیں پتہ چلاکہ مذہب پیدا ہونے کا سبب وہ مخصوص حالات تھے جن میں انسان گھرا ہوا تھا ،جیسے طوفان وغیرہ۔ یعنی یہ خاص ماحول کی ضرورت تھی جو ماحول اب نہیں رہا۔

جواب

یہاں بنیادی باتیں دو ہی ہیں

·       ایک یہ کہ سائنس نے ہمیں ہر بات کی توجیہ بتا دی ہے ۔ سو یہ ایک غلط بات ہے کیونکہ سائنس نے ہمارے سامنے  اسباب کی مزید تشریح رکھی ہے ان کی حقیقی توجیہ نہیں کی۔ مثلا ً سائنس نے " کیا ہے" کا جواب تفصیل سے دیا ہے لیکن کیوں ہے کا جواب ابھی تک بھی نہیں دیا ۔ یہ جواب آج بھی ہمیں مذہب ہی دیتا ہے ۔قانون تجاذب تو ہے لیکن کیوں ہے ۔اس کا جواب سائنس کے پاس نہیں ۔ سائنس تو اس کا جواب دینے سے انکار کردیتی ہے ،سائنس کے نزدیک یہ سب قانون فطرت ہے اور جب قانون فطرت کے بارے میں پوچھا جائے کہ وہ کیا ہوتا ہے تو سائنس کہتی ہے کہ   اس کا مطلب ہے  بلا وجہ چیزوں کا ایسے کام کرنایعنی  یہ سب اتفاق کا نتیجہ ہے  ۔حالانکہ اتفاق  نام کی کوئی چیز اس دنیا میں نہیں ہوتی ۔اور اگر بالفرض مان بھی لیں تو اتفاق ایک دفعہ ہوتا ہے نہ کہ باربار۔

·       دوسری بات کہ جو چیز مشاہدہ اور تجربہ میں آئے گی اسے ہی مانے گے ۔ سو یہاں سائنس خود بھول جاتی ہے کہ اس کے تمام دریافت شدہ اصول ایسے ہیں جنہیں آج  تک نہ دیکھا گیا نہ ان کا تجربہ کیا گیا ،مثلا ً انرجی ،گریوٹی، خود انسانوں کا ارتقاء کس نے دیکھا ہے ۔بگ بنگ کس نے دیکھا ہے ۔ سب سے بڑھ کر خود مادہ آج تک کس نے دیکھا ہے ۔ سائنس انہیں صرف ان کی صفات کی وجہ سے مانتی ہے ۔ مذہب بھی یہی کہتا ہے کہ خدا کو اس کی صفات کی وجہ سے مانوتو یہاں مذہب اور سائنس ایک ہی جگہ آکر کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ مادہ کو مان لینا اور خدا کو نہ ماننا سراسر ظلم اور جہالت ہے ۔

ماخوذ از علم جدید کا چیلنج

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں