قرآن کریم
کا طالب علم قرآن کریم کس طرح سیکھے ؟ اور اس کا طریقہ کار کیا ہونا چاہیے ۔ تو
مختصر الفاظ تین درجات کا لحاظ رکھے :
1۔ لفظی ترجمہ پر محنت ۔
2۔ بنیادی تفسیر پر محنت ۔
3۔ تفسیر القران کی امہات الکتب سے استفادہ ۔
اب درج ذیل
میں ان کی تفصیل ملاحظہ کیجئے ۔
لفظی ترجمہ
قرآن پر محنت کریں
لفظی ترجمہ
قرآن سیکھنے کے دو درجے ہیں :
پہلا درجہ
لفظی ترجمہ
والا قرآن کریم خرید لیں ساتھ ہی کوئی ایسی کتاب قرآن کریم کے لفظی تراجم کو خوب
حل کرتی ہو جیسے مفردات امام راغب اصفہانی یا لغات القرآن ۔ اگر آپ کے پاس کوئی
تفسیر موجود ہے جس میں لفظی ترجمہ آسان طریقہ سے حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے تو بے
شک اس سے استفادہ کر لیں مثلا مولانا پیر کرم شاہ صاحب کی تفیسر ضیاء القرآن میں
بہت سی جگہوں پر لفظی ترجمہ کو اچھے طریقہ سے حل کیا گیا ہے ، مفتی شفیع صاحب کی
معارف القرآن میں بھی بعض مقامات پر الفاظ کا حل موجود ہے ۔ یہ ایک مثال ہے ورنہ
کسی بھی ایسی تفسیر سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔
اس درجہ
میں اگر صرف نحو کا کچھ علم نا بھی ہو تو کوئی مسئلہ نہیں بس لفظی ترجمہ کو حل
کرنا ہے ۔ اگر ایک مرتبہ پورے قرآن کریم کا لفظی ترجمہ یاد کر لیا تو پہلا درجہ
مکمل ہوگیا ۔
دوسرا درجہ
دوسرے درجہ
میں قرآن کریم کے لفظی ترجمہ کو لغوی اور صرفی نحوی تحقیق کے ساتھ حل کریں ۔
چنانچہ
1۔ لغوی معنی کا حل ۔
2۔ صرفی اعتبار سے بنیادی تعیین کا علم ۔
مثلاً یہ ماضی ہے مضارع ہے امر ہے یا نہی وغیرہ ۔
3۔ نحوی اعتبار سے بنیادی تعیین ۔ مثلا جملہ
حال ہے ۔ لفظ تمییز بن رہا ہے یا بدل وغیرہ ۔
اس درجہ
مفردات قرآن کے ساتھ ساتھ اعراب القرآن پر لکھی گئی کتب سے استفادہ کرنا چاہیے ۔
طلبہ کو
درجہ خامسہ تک یہ کام ضرور کر لینا چاہیے ۔ ورنہ قرآن کریم کے حوالہ سے یقیناً ان
کا وقت ضائع ہوا ہے۔
بنیادی
تفسیر قرآن
اس کے بعد
بنیادی تفسیر قرآن کی باری آتی ہے ۔ بنیادی تفسیر میں یہ باتیں شامل ہیں :
1۔ آیت کے معنی کی تعیین ۔ مثلاً آیت کریمہ کے
مخاطب کون ہیں ۔
2۔ شان نزول کا علم ۔
3۔ ناسخ منسوخ آیات کا علم ۔
4۔ تفسیر القرآن بالقرآن ۔ یعنی قرآن کریم یہ
بات دیگر کن مقامات پر آئی ہے اور قرآن کریم نے دوسرے مقام پر کیا اضافہ کیا ہے یا
کون سے الفاظ میں بات ذکر کی ہے ۔ مثلاً قوم ثمود پر کون کون سے عذاب کا کہاں کہاں
ذکر ہے ۔
5۔ نبی اکرم ﷺ نے اگر کسی آیت کریمہ کے متعلق
کوئی بات ارشاد فرمائی ہے تو اس بات کا علم ۔
6۔ سورتوں اور پاروں کے بنیادی خلاصہ جات کو
یاد کرنا ۔
7 سورتوں اور پاروں کے
بنیادی مضامین کو یاد کرنا۔
غرض زیادہ
تفصیلات، صحابہ کرام ، تابعین اور ائمہ تفسیر کے بہت سے اقوال کی طرف رجوع کیے
بغیر، صرفی نحوی ، کلامی ، بلاغی ، فقہی اختلافات کو چھوئے بغیر صرف بنیادی تفسیر
کے علم کی طرف توجہ کی جائے ۔
اس درجہ
میں علامہ ابن کثیر کی تفسیر ، علامہ شنقیطی کی تفسیر القرآن بالقرآن یا علامہ
زحیلی کی تفسیر منیر جیسی تفاسیر سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔
تیسرا درجہ
پہلے دو
درجات کو عبور کرنے کے بعد اب طالب علم اس بات کا اہل ہے کہ وہ تفسیر کے علم و
حکمت سے بھرے سمند میں غوطہ زن ہو۔ اب امہات التفاسیر سے وہ استفادہ کر سکتا ہے جن
میں صرفی نحوی اختلافات، بلاغی اور کلامی مباحث، فقہی اور دیگر اختلافات کو ذکر
کیا جاتا ہے ۔
اقسام کتب
تفاسیر کا علم
اس درجہ پر
تفاسیر سے استفادہ کرنے سے پہلے طالب علم کو ایک بات معلوم ہونی چاہیے کہ جس تفسیر
سے وہ استفادہ کرنا چاہتا ہے وہ تفسیر کس لحاظ سے لکھی گئی ۔ اہل علم نے تفاسیر کو
مختلف اقسام میں تقسیم کیا ہے ۔ مثلا ً
تفسیر
ماثور ۔ جس میں قرآن کریم کی تفسیر اسلاف یعنی خیر القرون سے کی گئی ہو۔
کلامی
تفسیر ۔ جس کتب تفسیر میں کلامی مباحث زیادہ ہوں ۔ جیسے تاویلات اہل السنہ ۔
یا تفسیر کبیر
نحوی تفسیر۔
جس کتب میں نحوی مباحث زیادہ ہوں جیسے البحر المحیط ۔
فقہی تفسیر۔
جس کتب میں فقہی مباحث زیادہ ہوں جیسے احکام القرآن ۔
فلسفی
تفسیر۔ جس کتب میں فلسفیانہ مباحث زیادہ ہوں ۔ جیسے تفسیر المیزان ۔
تفسیر
اشاری ۔ جن تفاسیر میں صوفیاء کرام کی تشریحات زیادہ ہوں جیسے تفسیر حقی
وغیرہ ۔
تفسیر
بلاغی ۔ جس میں قرآن کریم کے بلاغی پہلوؤں کو کھول کر بیان کر نے کی کوشش کی
گئی ہو جیسے تفسیر کشاف ۔ تفسیر مراغی وغیرہ ۔
جامع
تفاسیر ۔ جن تفاسیر میں سب مباحث کو جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہو جیسے روح
المعانی ۔
غرض اس بات
کا علم ہونے کے بعد اپنے رجحان کے اعتبار سے کسی تفسیر کا انتخاب کیا جاسکتا ہے ۔